عربی زبان کی عظمت و اہمیت

عربی زبان کی عظمت و اہمیت

مولانا اطہرحسین

یو ں تو اس کارخانۂ عالم کی سب ہی چیزیں قدرت کی کرشمہ سازیوں اور گلکاریوں کے ناطق مجسمے، اسرارورموز کے زبردست گنجینے اور اپنے خالق حقیقی اورقادر مطلق کے وجود کے عمیق وجلی نقوش اور واضح نشانات ہیں جو سعادت مند روحوں کے لئے عبرت و موعظت کے گرامی قدر سرمایہ اورنظر و فکر کے عظیم الشان ابواب ہیں ،لیکن بعض چیزوں کو اس سلسلے میں خصوصی اہمیت اور شان مظہریت عطا کی گئی ہے۔ ان ہی میں سے زبانوں کی رنگارنگی اور لغات کی بو قلمونی بھی ہے، قرآن پاک میں خدا وند ی نشانیوں کو بتاتے ہوئے جہاں دن اور رات کا اختلاف ،شکل وصورت کا تنو ع، زمین وآسمان کا تقابل مذکور ہے، اسی کے ساتھ زبانوں اورلغات کے تفاوت کو بھی ذکر کیا گیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:اللہ کی نشانیوں میں سے آسمان وزمین کی پیدائش اور زبانوں اور رنگوں کا اختلاف ہے، اس میں اہل علم کےلیے نشانیاں ہیں ۔(سورہ ٔروم)’’زبان‘‘اللہ کی اہم نعمت اور بڑی نشانیوں میں سے ہے ،عقل ومذہب اوراخلاق وعادات پر اس کا بڑا گہرا اثر ہے ،ابن قیم تحریر فرماتے ہیں: بلاشبہ، عقل ودانش ،عادات اور دین ومذہب میں زبان کی کھلی تاثیر ہے۔

زبان ہی انسانی مقاصد واحساسات اورقلبی رجحانات وجذبات کے اظہار کا واحد ذریعہ ہے ،حکومتوں اور سلطنتوں، انجمنوں اور اداروں کے جملہ نظام زبان ہی سے تکمیل پاتے ہیں ،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دین ودنیا کا ماہر بڑا چھوٹا انفرادی اوراجتماعی عمل زبان ہی کا مرہونِ منت ہے، جس طرح تجارت وزراعت اورصنعت وحرفت کے لئے زبان کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح عبادت وقربت اوراحکام دینیہ کی نشر واشاعت میں بھی زبان کی اہمیت مسلّم ہے، اسی لئے ہر نبی نے اپنی اپنی قوم کی زبان میں دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دیا اور بھٹکے ہوئے انسانوں تک اللہ کا پیغام پہنچایا ،ارشاد خدا وندی ہے :ہم نے ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان میں بھیجا ہے۔ (سورۂ ابراہیم)

دنیا کی مختلف زبانوں میں اللہ کا پیغام آیا، لیکن اس کا آخری پیغام اورآخری ہدایت نامہ سعادت کا آخری اور مستحکم قانون علوم وفنون کا مکمل اورجامع ترین صحیفہ یعنی قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہوا ۔بے شک، ہم نے قرآن کوعربی میں نازل کیا ،تاکہ تم سمجھ لو۔

زبانیں اگر چہ بے شمار تھیں ،لیکن اس قوانین خدا وندی کے آخری مجموعے کے لئے صرف عربی زبان کو اختیار کیا گیا کہ یہ ان متنوع خصوصیات اور گونا گوں فضائل ومناقب کو محیط ہے جو دوسری زبانوں میں نہ تھے ،اسی لئے اسے اسلام کی سرکاری زبان قرار دیا گیا۔ ​عربی زبان دنیا کی تمام زبانوں میں اعلیٰ و منتخب اور یگانہ ٔ روزگار ہے، اگر اسے بے پناہ جامعیت ومعنویت اور لامتناہی وسعت کے سبب ’’ام الألسنۃ ‘‘کے لقب سے نوازا جائے تو بیجانہ ہوگا، یہ فضل وشرف کی ضامن اورمناقب ومحاسن کو جامع ہے ،مختلف نوعیتوں اور متعدد اسالیب سے اس کی خوبیاں ظاہر ہیں۔

قرآن پاک کی آیات سے عربی کے افضل واشرف ہونے پرروشنی پڑتی ہے ،ارشاد باری تعالیٰ ہے:جس کی طرف تعریض کرتے ہیں اس کی زبان عجمی ہے اوریہ قرآن پاک زبان عربی ہے صاف ۔دوسری جگہ ارشاد ہے:اوربے شک یہ قرآن اللہ رب العالمین کی طرف سے نازل شد ہ ہے۔ آپ کے قلب پر روح الامینؑ اسے لے کر اترے ،عربی زبان میں جو واضح زبان ہے ،تاکہ آپ ڈرانے والوں میں ہوں۔

ماہر لغت ابن فارس کہتا ہے:’’عربی کی فضیلت اوربرتری اس سے معلوم ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ شانہٗ نے (ان آیات میں) عربی کو ’’بیان ‘‘ کی صفت کے ساتھ موصوف کیا ،جو کلام کی صفات محمودہ ہیں انتہائی ارفع اورابلغ ہے ،اسی لئے آیت ’’خلق الانسان علّمہ البیان ‘‘میں صفت بیان کو ان تمام چیزوں پر مقدم کیا ہے، جن کی خلقت وآفرینش میں حق جل مجدہٗ کی ذات متوحد و منفرد ہے ۔‘‘

نبی کریم ﷺ نے بھی اپنی زبان گوہر فشاں سے مختلف احادیث میں عربی زبان کے تکلم وتعلم کا امر فرماکر عربی کے مجدو شرف کو اجاگر فرمایا ہے، ارشا د عالی ہے۔’’جو شخص اچھی طرح عربی بول سکتا ہو، اس چاہیے کہ وہ عجمی زبان میں بات چیت نہ کرے ،کیونکہ عجمی زبان نفاق پیدا کرتی ہے۔‘‘ دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا:’’عربی زبان تین وجہ سے مرکزمحبت بننے کی مستحق ہے ،سب سے پہلے تویہ کہ میں عربی ہوں ، دوسرے اللہ کے کلام پاک کی زبان عربی ہے ،تیسرے یہ کہ تمام جنتیوں کی زبان عربی ہوگی ‘‘۔

عمر بن زید کہتے ہیں کہ’’ حضرت عمر ؓ نے حضر ت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو لکھا کہ تم سنت اور عربیت میں تفقہ حاصل کرو ۔‘‘حضرت سعد بن وقاص ؓ نے ایک مرتبہ ایک جماعت کو فارسی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا’’ملتِ اسلامیہ کے بعد آتش پرستی کی کیا ضرورت ہے ‘‘یعنی عربی زبان کو چھوڑ کر مجوسی زبان میں گفتگو کرنا مناسب نہیں۔ حضرت عمرؓ کا ارشاد ہے’’عربی زبان سیکھوکیونکہ یہ اموردین میں سے ہے ‘‘۔

دین اسلام نے خدا وندی نشانیوں یعنی زبانوں کے احترام کوباقی رکھتے ہوئے اپنے لئے عربی کو منتخب کیا، اور اپنے بنیادی عقائد اوراخلاق کی تلقین کا حکم عربی زبان میں دیا ،توحید ورسالت کا دل میں راسخ اورمضبوط کرنا اصل ایمان ہے، مگر اس کا اظہار عربی الفاظ کے ذریعے ہوتا ہے ۔ایمان کے بعد نماز جو اسلام کے اہم اور بنیادی امور میں سے ہے اور تما م عبادات اور قربتوں کا خلاصہ اور نچوڑ ہے، اس کے ارکان کی ادائیگی کے لئے عربی کلمات کو تکبیرات و تلاوت وغیرہ میں ضروری قرار دیا گیا ، عربی زبان چھوڑ کر اگر قرآن پاک کی تلاوت کسی دوسری زبان میں کی جائے تو ثواب حاصل نہیں ہوتا، اسی طرح شریعت نے تمام اور اد و اذکار کی اسی زبان کے ذریعے تعلیم فرمائی۔

جس طرح ہر حکومت اورسلطنت کی ایک مخصوص زبان ہوتی ہے جس میں ملکی آئین وقوانین مرتب ہوتے ہیں اورحکومت کے ہر شعبے اور محکمے میں یہ ہی زبان جاری وساری ہوتی ہے ،دفتروں اور کچہریوں میں اس کا استعمال ہوتا ہے ،بالکل اسی طرح حق تعالیٰ جل شانہ ٗ نے عربی زبان کو مملکتِ الٰہیہ اورمخلوقات سماویہ کے لئے متعین فرماکر آسمانی زبان ہونے کا شرف عطا فرمایا ،چنانچہ روایات کثیر ہ سے آسمان والوں کی زبان کا عربی ہونا معلوم ہوتا ہے ،جملہ آسمانی صحیفے اور کتابیں اسی زبان میں لکھے جاتے ہیں ۔قرآن مجید جنت ،برزخ اور انسانیت کے مورثِ اعلیٰ حضرت آدم علیہ السلام کی زبان بھی یہی ہے۔

حضرت ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ’’حضرت آدم علیہ السلام کی زبان جنت میں عربی تھی ،خطا سرزد ہونے پر عربی چھین کر سریانی زبان دے دی گئی اورجب آپ تو بہ کرچکے تو پھر عربی واپس کردی گئی ‘‘۔

قرآن پاک سے لوح محفوظ کی زبان کابھی عربی ہونا معلوم ہوتا ہے ،ارشاد باری ہے:بلکہ قرآن لوح محفوظ میں لکھا ہوا ہے ۔یہ ظاہر ہے کہ قرآن الفاظ اورمعنی کے مجموعہ کا نام ہے اور حسب مقتضائے آیت قرآن کے لوح محفوظ میں ہونے سے لازم آتا ہے کہ قرآن کے معنی کے ساتھ اس کے موجودہ الفاظ بھی لوح محفوظ میں ضروری طور پر موجود ہوں ،اسی مقام سے ان لوگوں کی بھی تائید ہوتی ہے، جنہوں نے ہر نبی پر وحی کا نزول عربی زبان میں تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہر نبی نے آمدہ وحی کا جو کہ عربی تھی اپنی قوم کی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔

علامہ سیوطیؒ نے تفسیر اتقان میں اس قول کو ذکر کرنے کے بعدرقم فرمایا ہے کہ آیت ’’وماأرسلنا من رسول إلابلسان قومہ‘‘ سے اس کی جانب اشارہ مفہوم ہوتا ہے کیونکہ وماأنزلنا من کتاب کے بجائے وماأنزلنا فرمایا گیا ہے ،اس سے انبیائے کرامؑ کی وحی کا عربی زبان میں آنا اور پھر ان کا اپنی قوم کی زبان میں ترجمہ کرنا بالکل عیاں ہے۔ عربی زبان دینی معارف وحقائق اورقرآن وحدیث کے نکتوں اور دقیقوں اور روحانی معارف کی کلید ہے اور دیگر علوم عقلیہ ونقلیہ کے لئے ممد ومعاون ہے، اسی بناء پر عربی لغت کا سیکھنا علمائے امت کے نزدیک بالاجماع فرض کفایہ ہے۔

امام رازی نے تفسیر کبیر میں اور سیوطی نے اقتراح میں اس کی تصریح کی ہے۔ ’’علم لغت بلاشبہ امور دین میں سے ہے ، کیونکہ فرض کفایہ ہے، اس کے ذریعہ قرآن وحدیث کے الفاظ کی شناخت ہوتی ہے ۔صحاحؔ جوہریؔ میں ہے’’اس (عربی )زبان کو اللہ جل شانہ نے اشرف ترین درجہ عطا فرمایا ہے، دین ودنیا کا علم اس کی معرفت سے وابستہ ہے ‘‘۔

حضرت عمرؓ فرماتے ہیں’’عربی جاننے والوں کے علاوہ کوئی شخص قرآن مجید کی تعلیم نہ دے ‘‘۔حضرت ابن عباسؓ کا قول ہے’’جب تم سے قرآن کے نادر وغریب لغت کے بارے میں سوال کیا جائے تو اسے عربی اشعارمیں تلاش کروکیونکہ شعرعرب کادیوان ہے ‘‘۔

اگر عربی زبان کو عام بو ل چال اور گفتگو کے لئے منتخب کر لیا جائے اورانسان اسی زبان کا عادی بن جائے تو دو بڑے فائدے حاصل ہوتے ہیں جو عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان سے نہیں ہوسکتے ،انتہائی اہم اور پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ متکلم کو ملائکہ ،اہل جنت اور بالخصوص سروردوعالم ﷺ سے مشابہت حاصل ہوجاتی ہے جو ایک مؤمن کے لئے نہایت ہی وقیع اورقابل قدر ہے ،اس سے بڑھ کر شرف وبزرگی اورمحبت وعقیدت کا کوئی سامان نہیں ہوسکتا ،در حقیقت مؤمن کے لیے اس میں فلاح وکامیابی ہے ،دوسرافائدہ یہ ہے کہ جب انسان عربی میں گفتگو کرنے کا عادی ہوگا تو تشبہ کی بناء پر عرب کے وہ مخصوص فضائل اور مناقب بھی اسے حاصل ہوں گے جو متعدد احادیث وروایات میں وارد ہیں۔

نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے ،اے لوگو! رب ایک ہے ،باپ ایک ہے ،دین ایک ہے اور عربیت تم میں سے کسی کےلیے ماں باپ سے نہیں، بلکہ وہ ایک زبان ہے، جس نے اس میں بات چیت کی وہ عربی ہے۔ (رواہ ابن عساکر)ایک اورروایت میں ہے ’’عرب کی محبت ایمان ہے اوران کا بغض نفاق ہے ‘‘۔(مستدرک)حضرت عثمانؓ سے روایت ہے’’جس نے عرب کو دھوکا دیا، وہ میری شفاعت میں داخل نہ ہوگا اور نہ اسے میری محبت حاصل ہوگی ‘‘۔(ترمذی)اس کے علاوہ متعدد روایات میں عرب کے فضائل ومناقب وارد ہوئے ہیں جو اپنے مقام پر مذکور ہیں ،وہ سب ہی عربی زبان میں جدوجہد کرنے والے کو حاصل ہوسکتے ہیں۔

دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں عربی زبان سے زیادہ قدیم اورزندہ زبان روئے زمین پر اس وقت نہیں ملتی جو قرناً بعد قرن مختلف جماعتوں اورطبقوں میں تربیت پاتی اورترقی کرتی ہوئی چلی آرہی ہے، گو اس زبان نے قومی اور ملکی لحاظ سے بے شماررنگ بدلے لیکن اصلیت کے لحاظ سے اپنی جگہ قائم رہی ،لباس بدلتا رہا ،ذات نہ بدلی ،بلکہ مورخین کے ایک قول کے مطابق یہ دنیا کی زبانوں میں سب سے پہلی زبان ہے۔

عربی زبان دنیا کی تمام زبانوں کے لحاظ سے انتہائی جامع اورمکمل اوروسیع ہے، اس کے مختصرجملے اور موجزفقر ے معنیٰ اورمفہوم کی جن اعلیٰ اورعظیم ترین وسعتوں کوسمیٹ کرجس خوش اسلوبی اوراکمل طریق کے ساتھ ذہن انسانی تک پہنچاسکتے ہیں، دوسری زبانوں کے طول طویل جملے اورمفصل فقرے بھی ذہن کو وہاں تک نہیں پہنچا سکتے ،اس کی بے پناہ وسعت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ مرادفات کثیرہ کے علاوہ شیریں اور خوش کن استعارات وکنایات کثرت کے ساتھ موجود ہیں ،حسن ادائیگی اور طرق تعبیرکی فراوانی ہے ،ایک ایک لفظ کے کئی کئی معنی ہیں، مثلاً لفظ عین عربی زبان میں سترمعنی میں مستعمل ہے ، لفظ عجوز کے ساٹھ سے کچھ اوپر معنی ہیں ، اسی طرح ایک ایک معنی کے لئے کئی کئی الفاظ ہیں ،شہدؔ ہی کو لے لیجئے کہ اس کے لئے عربی کے خزانے میں ۸۰ الفاظ ملتے ہیں ،جن کے بارے میں مجد الدین شیرازی کی ایک تصنیف بھی پائی جاتی ہے ،سانپ کے لئے دو سو، اونٹ اورتلوار کے لئے ایک ہزار اورمصیبت کے لئے چار ہزار الفاظ ہیں ،شیر ؔ کے پانچ سو نام اورصفات کے علاوہ بیشمار کنیتیں اور القاب بھی ہیں ،اسی طرح ایک ایک جانور کے لئے کتنے نام اورکتنے القاب وکنیتیں ہیں۔

اس سے عربی زبان کی وسعت اورہمہ گیری کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، انگریزی جو کوتاہ نظر و ں کے لئے عجوبہ بنی ہوئی ہے اور جسے وسعت کے ساتھ موصوف کیا جاتا ہے ،وہ عربی جیسی بے پناہ وسعت اور محاسن سے قطعاً عاری ہے، متذکرہ بالا فضائل میں سے نہ کوئی فضیلت اس میں ہے اورنہ ہی اس قسم کی وسعت ،عربی کی ایک بہت معمولی خوبی یہ ہے کہ واحد وتثنیہ اورجمع کے لئے الگ الگ صیغے ہیں، لیکن انگریزی اس سے بھی محروم ہے ،اس میں واحد کے علاوہ تثنیہ وجمع کےلیے ایک ہی صیغہ استعمال ہوتا ہے ،اسی طرح اگر انگریزی کی ہر ایک چیز کا عربی سے موازنہ کرکے دیکھا جائے تو دونوں میں بین فرق نکلے گا اور عربی کے سامنے انگریزی کافراخ دامن بھی تنگ نظر آئے گا ۔وسعت تو بعض دوسری زبانوں میں بھی پائی جاتی ہے، لیکن عربی کو جس درجہ بے پناہ وسعت اورفراخی حاصل ہے ،وہ کسی دوسری زبان کو نہیں، وہ وضع وایجادکے کسی موڑ پر بھی دوسری زبان کی طرف دست سوال دراز نہیں کرتی۔

Share This:

اسلامی مضامین

  • 13  اپریل ،  2024

مفتی محمد راشد ڈسکویآج کل ہر طرف مہنگائی کے از حد بڑھ جانے کے سبب ہر بندہ ہی پریشان نظر آتا ہے، کسی بھی مجلس میں شرکت کی...

  • 13  اپریل ،  2024

مولانا نعمان نعیمرسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ایک بالشت برابر زمین بھی ظلماً لی ، قیامت کے دن اُسے سات زمینوں...

  • 12  اپریل ،  2024

حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا دن...

  • 11  اپریل ،  2024

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:یہ بیچارے غلام اور ملازم...

  • 10  اپریل ،  2024

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے احسان کا شکریہ...

  • 10  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم.حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے۔ انہوں نے فرمایا :دعا آسمان اور زمین کے...

  • 09  اپریل ،  2024

حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب شب قدر آتی ہے تو جبرئیل علیہ...

  • 09  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلمحضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہٗ کا بیان ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے...

  • 09  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلمحضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہٗ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ...

  • 08  اپریل ،  2024

مولانا سیّد سلیمان یوسف بنوریآپ کے مسائل اور اُن کا حلسوال: ہمارا گاڑیوں کی خریدوفروخت کا کاروبار ہے۔ ایک اور شخص ب نئی...

  • 08  اپریل ،  2024

ماہ شوال کے چھ روزے، جو شوال کی دُوسری تاریخ سے شروع ہوتے ہیں، مستحب ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:...

  • 08  اپریل ،  2024

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری...

  • 08  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلمجناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے، جو شخص عید کے دن تین سو مرتبہ سبحان...

  • 07  اپریل ،  2024

مفتی محمد مصطفیٰحضرت سہل بن سعدؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا :’’میری امت کے لوگ بھلائی پر رہیں گے، جب تک وہ روزہ...

  • 07  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلمحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو...

  • 07  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلمحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:...

  • 07  اپریل ،  2024

مولانا نعمان نعیم’’زکوٰۃ‘‘ اسلام کےبنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ قرآن وسنت میں زکوٰۃ کی فرضیت اور فضیلت و...

  • 06  اپریل ،  2024

سید صفدر حسینامام موسیٰ کاظمؒ، حضرت امام جعفر صادقؒ کے صاحبزادے ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ حمیدہ بربریہ اندلسیہ تھیں۔ آپ...

  • 06  اپریل ،  2024

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ کا سہارا لگائے بیٹھے...

  • 06  اپریل ،  2024

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نماز میں دعا مانگتے دیکھا لیکن اس نے نہ تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی اور...