خلیفہ راشد، امیرالمؤمنین، سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ

خلیفہ راشد، امیرالمؤمنین، سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ

خلیفۂ راشد، امیرالمؤمنین، فاتحِ خیبر، حیدرِکرّار، شیرِ خدا، ابو تراب سیّدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی ذاتِ گرامی جرأت و شجاعت،ہمت وبہادری اور سیرت و کردار کا ایک قابلِ فخر اور تاریخ ساز باب ہے۔’’بابُ العلم‘‘ سیّدنا علی مرتضیٰؓ کی سیرت کا ایک تاریخ ساز پہلو آپ کی جرأت و شجاعت، استقامت و پامردی اور بہادری و دلیری ہے۔ اس حوالے سے آپؓ اسلام کی پوری تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے جس دین کو خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ پر مکمل فرمایا اور امت ِمحمدی کی تشکیل فرمائی، اس امت آغاز چند جاں نثار اصحابِ رسول ﷺ سے ہوا ۔ امت کے ان اولین امتیوں کی صف میں ہمیں رسول اللہ ﷺ کے اہلِ بیتِ اطہارؓ سب سے پہلے نظر آتے ہیں۔

جن میں سب سے پہلی ایک خاتون ہیں جو آپ ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا اور دوسرے آپ کے دوست اور محب حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، تیسرے آپ کے عم زاد حضرت علی بن ابی طالب ؓنظر آتے ہیں۔ ان کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے ایک غلام اور منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ ؓ۔ یہ وہ مقدس ہستیاں ہیں جن سے امت کی گنتی شروع ہوئی اور آخری نبی کی آخری امت کا خمیر اٹھایا گیا، یہی وہ نفوس قدسیہ ہیں جن سے امتِ محمدیہ ﷺ کی ابتداء ہوئی۔

حضرت علی ؓ امت کی تاسیسی شخصیات اور درخشاں و تابندہ ہستیوں میں سے ایک ہیں، جنہوں نے اپنے علم و فضل، شجاعت و سخاوت اور جذبۂ محبت و قرابت رسول اللہ ﷺ سے اسلام کی خدمت اور غلبۂ دین حق کے لئے نمایاں کارنامے انجام دےکر رہتی دنیا تک کے لئے نہایت اعلیٰ مثالیں قائم کیں اور تاریخ میں نمایاں مقام پایا۔ اعلانِ نبوت ﷺ کے وقت حضرت علی ؓ کی عمر دس سال ہوگی۔ حضرت علی ؓ نے اس عمر میں نبوت کی پہلی صدا پر دعوتِ اسلام کو قبول کیا اور بچوں میں سب سے پہلے امتی بچے کہلائے۔

نبوت ملنے کے بعد جب رسول اللہ ﷺ نے اپنے قریبی عزیزوں اور سردارانِ قریش کو اُن کی غلط روشِ زندگی کے برے نتائج سے ڈرانے کے لئے اپنے خاندان والوں کو دعوت پر جمع کیا اور ان سے فرمایا ’’اے بنی عبدالمطلب ! میں تمہارے سامنے دنیا و آخرت کی بہترین نعمت پیش کرتا ہوں، تم کہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، تم کامیاب ہو جاؤ گے، بولو! تم میں سے کون میرا ساتھ دیتا ہے اور کون میرا مددگار بنتا ہے کون اسلام قبول کرتا ہے‘‘۔ تو سب سردار ان قریش ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے، جواب میں صرف ایک کمزور و نحیف آواز آئی، بولا تو صرف ایک بچہ بولا کہ ’’یا رسول اللہ ﷺ اگرچہ میں سب سے چھوٹا ہوں، کمزور ہوں میری ٹانگیں بھی پتلی پتلی ہیں، لیکن میں غلبۂ دین حق کے لئے آپ کا معاون و مددگار اور قوتِ بازو بنوں گا۔

یہ آواز شیر خدا علی بن ابی طالبؓ کی تھی۔ رسول اللہﷺ نے تین بار اس سوال کو دہرایا۔ اس کے جواب میں ہر مرتبہ علی بن ابی طالب ؓہی کی آواز آئی۔ اس کے صلے میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’علی ؓتم میرے وارث اور بھائی ہو‘‘۔ حضرت علیؓ کا وعدہ واقرار اور عزم ِ مدد و تعاون محض زبانی کلامی دعویٰ نہیں تھا، بلکہ عمل اس سے بڑھ کر ہی تھا۔ آپ نے جس طرح اس عہد کو خون کے آخری قطرے اور زندگی کی آخری سانس تک نبھایا ،وہ پوری امت میں آپ ہی کا خاصہ اور حصہ ہے۔

قبول ِ اسلام کے بعد حضرت علی ؓنے آغوش نبوت میں پرورش پائی، اس تربیت کا اثر یہ تھا کہ آپ کی پیشانی کو اللہ نے بت پرستی سے داغدار نہیں ہونے دیا۔ حضرت علی ؓ نے بھی اپنے والد ماجد کی طرح ان کی وفات کے بعد بھی رسول اللہ ﷺ کا ہر طرح کے مصائب و آلام میں کبھی ساتھ نہیں چھوڑا، یہاں تک کہ ہجرت کے وقت سرکار دو عالم ﷺ کے بستر مبارک پر آپ، رسول اللہ ﷺ کی چادر اوڑھ کر سوئے جو ایک انتہائی خطرناک فیصلہ اور جاں نثارانہ خدمت تھی۔

اُدھر کفار تمام رات کاشانۂ نبوت کے گرد پہرہ دیتے رہے اور اسی گمان میں فجر کر دی کہ جس وقت رسول اللہ ﷺ اپنے آستانۂ مبارک سے نکلیں گے تو (نعوذ باللہ) انہیں شہید کر دیں گے۔ حضرت علی ؓ نے ہجرت کی صبح رسول اللہ ﷺ کی وہ تمام امانتیں اُن کے مالکوں کو واپس کر دیں جن کے واپس کرنے کی ذمہ داری رسول اللہ ﷺ نے آپ کو سپرد کی تھی اور جن کے واپس کرنے کے لئے ہی آپ ہجرت میں پیچھے رہ گئے تھے۔

حضرت علیؓ نے ہجرت کی شب جس فضیلت کو حاصل کیا ،ایسی فضیلت آج تک کسی انسان کو حاصل نہیں ہوئی اور زبانِ رسالت سے اس حکم کے ملنے کے بعد کہ علی تم میرے بستر پر سو جانا، نہ تو کسی ترد د وسستی کا مظاہرہ کیا، نہ ہی خوف و قلق کا شکار ہوئے۔ نہ اُن کا رنگ متغیر ہوا، نہ ان کے اعضاءو جوارح میں اضطراب پیدا ہوا۔ حضرت علی ؓ ہجرت کی شب کی نیند کے متعلق خود فرماتے ہیں :میں ہجرت کی شب اپنی زندگی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ہاتھوں بیچ کر بستر رسول ﷺ پر سویا تو ایسی سکون کی نیند پوری زندگی نہیں سویا‘‘۔

احادیث مبارکہ میں حضرت علی ؓ کے بڑے فضائل بیان ہوئے ہیں۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے مدینہ سے روانگی کے وقت یہ فرماتے ہوئے حضرت علیؓ کو اپنا نائب مقرر فرمایا کہ علی تم میرے لئے ایسے ہو جیسے ہارون ؑ موسیٰ ؑ کے لئے تھے ، مگر فرق صرف اتنا ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔(متفق علیہ) حضرت علیؓ ہی سے مشہور روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’میں علم کا شہر اور علی ؓ اس کا دروازہ ہیں۔‘‘ (ترمذی)

حضرت علی ؓ نے اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کی ہر میدان اور ہر شعبۂ زندگی میں بے مثال اور عدیم النطیر خدمات انجام دیں۔ چنانچہ میدانِ جہاد ہو یا شعبۂ علم و فقہ و قضا ، آپ ؓ ہمیشہ ہر جگہ پیش پیش رہے۔ مدینہ منورہ تشریف لانے کے بعد ۲ھ ہجری میں رسول اللہ ﷺ نے اپنی لختِ جگر خاتونِ جنت سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ کا نکاح حضرت علی ؓ سے فرما کر آپ کو اپنے داماد ہونے کا شرف بخشا۔ اس نکاح کے تمام معاملات مہر، جہیز ، ولیمہ کی ساری داستان تاریخ کا عظیم اور قابلِ عمل سرمایہ ہے۔ ایک امتی کے لئے اس سے بڑا اعزاز کوئی ہو ہی نہیں سکتا کہ وقت کا نبی اسے اپنی دامادی کے اعزاز و شرف سے سرفراز کرے۔

حضرت علی ؓ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غلبۂ دین حق اور دفاع اسلام کی جدو جہد میں ہمیشہ شریک رہے اور تمام غزوات و سرایا میں اپنی شجاعت کا لوہا منوایا۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک معرکے میں آپؓ اپنے حریف پر غالب آگئے۔ اس کے سینے پر چڑھ کر اسے قتل کرنا چاہتے تھے کہ اس نے زندگی سے مایوس ہوکر آپ کے چہرے پر تھوکنے کی ناپاک جسارت کی، اس پر آپؓ اس پر قدرت اور قابو پانے کے باوجود اسے چھوڑ کر الگ کھڑے ہوگئے، وہ آپ کے اس اقدام پر حیرت زدہ رہ گیا، اس نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا: اے علی! آپ مجھ پر مکمل طور پر قابو پاچکے تھے، پھر مجھے زندہ اور آزاد کیسے چھوڑ دیا؟ آپؓ نے فرمایا، پہلے میری جنگ تمہارے ساتھ محض اللہ کے لیے تھی، اب اگر میں تمہیں قتل کرتا تو اس میں ذاتی انتقام کا جذبہ شامل ہوتا، اس لیے میں نے تمہیں آزاد چھوڑ دیا۔ وہ شخص آپ کے اس جرأت مندانہ اقدام سے اس قدر متاثر ہوا کہ دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا۔

حضرت علی ؓ نے اپنے بچپن سے جوانی تک زندگی کے تیس بہترین سال رسالت مآب ﷺ کی پیاری تربیتِ و آغوش اور صحبت میں گزارے۔ حضرت علی ؓ کو قرآن کی تفسیر اور اس کے تمام علوم، حدیث و علم حدیث اور فقہ میں مکمل دسترس اور تبحّر علمی حاصل تھا۔

فنِ خطابت میں حضرت علی ؓ کو خدا داد ملکہ حاصل تھا ۔ شعر و شاعری سے بھی شوق فرمایا کرتے تھے۔ علم نحو کی ایجادکا سہرا بھی آپ ہی کے سر ہے۔ غرضی کہ کاشانۂ نبوت میں تربیت پانے والے حضرت علی ؓ کی پوری زندگی ہمارے سامنے ہے جس میں تقویٰ ، اخلاص، احسان، مروت، عفو وکرم ، توکل، رضا، صبر ، شکر قناعت، استغناء کی صفات بہ تمام و کمال نظر آتی ہیں۔

Share This:

اسلامی مضامین

  • 01  اپریل ،  2025

کُھلے، نیلے آسمان پر بادل کی ٹکڑیوں کے بِیچ شرماتے، لجاتے ہلال کی جھلک دیکھنا رمضان کی آخری گھڑیوں میں شوق کا امتحان...

  • 31  مارچ ،  2025

’’عیدُالفطر‘‘ امّتِ مسلمہ کا پُرمسرّت دینی و مذہبی تہوار اور اسلام کی ملّی، تہذیبی اور روحانی اقدار کی روشن علامت ہے۔...

  • 30  مارچ ،  2025

عیدالفطر وہ خاص الخاص دِن ہے کہ جس روز اللہ تعالیٰ اپنے چُنیدہ بندوں پر کہ جنہوں نے رمضان المبارک کے روزے رکھے، خشوع و...

  • 30  مارچ ،  2025

’’عیدُالفطر‘‘اہلِ ایمان کے لیے رمضان المبارک کی عبادت و ریاضت کا انعام، اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزے داروں کے اعزاز و...

  • 29  مارچ ،  2025

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: دین کے بارے میں کوئی زبردستی اور جبر نہیں ۔ قرآن پاک نبی کریم ﷺ کو خطاب کرکے ہر مسلمان کو تنبیہ...

  • 28  مارچ ،  2025

حکیم محمد سعید شہیدرحمت و مغفرت کے موسم بہار رمضان کریم کے مقدس اور بابرکت شب و روز کو الوداع کہنے سے قبل ہمیں اس امر کا...

  • 28  مارچ ،  2025

رمضان کا آخری عشرہ خصوصی اہمیت و توجہ کا حامل ہے، خصوصاً ان لوگوں کے لئے جو پہلے دو عشرے اپنی غفلتوں کی نذر کرچکے اور اس...

  • 27  مارچ ،  2025

لیلۃ القدر انتہائی برکت والی ہے، اسے لیلۃ القدر اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں سال بھر کے احکام نافذ کئے جاتے ہیں یعنی فرشتے...

  • 27  مارچ ،  2025

مولانا نعمان نعیم رمضان المبارک جسے رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کا مقدس مہینہ قرار دیا گیا ہے،اپنی تمام تر رحمتوں اور...

  • 26  مارچ ،  2025

یوں تو سال کے 365دِن ہی دُنیا بَھر کی مساجد اللہ تعالیٰ اور اُس کے محبوب پیغمبر، حضرت محمدﷺ کی حمد و ثنا کرنے والوں سے...

  • 25  مارچ ،  2025

" فتح مکہ"رمضان المبارک ۸ ھ میں وقوع پذیر ہونے والا اسلامی تاریخ کا نہایت ہی عظیم الشان واقعہ ہے ، سیرت النبی ﷺ کا یہ وہ...

  • 24  مارچ ،  2025

سرور کونین، فخر موجودات ، محسنِ انسانیت، حضرت محمد ﷺ کے پیغمبرانہ امتیاز اور خصائص میں ایک امتیازی وصف اور آپﷺ کی...

  • 23  مارچ ،  2025

ماہِ رمضان المبارک، اسلامی تقویم کے اعتبار سے نواں مہینہ ہے۔ یہ تمام مہینوں کا سردار ہے اور اس کے فضائل لامحدود ہیں۔ یہ...

  • 22  مارچ ،  2025

سیدنا علی مرتضیٰ ؓ کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ خصائص وامتیازات سے ممتاز فرمایا، آپ کو فضائل وکمالات کا جامع، علوم ومعارف...

  • 22  مارچ ،  2025

رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ایک دن بھی اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے اعتکاف کرتا ہے تو اللہ اس شخص کے اور دوزخ کے...

  • 22  مارچ ،  2025

رمضان المبارک تمام مہینوں کا سردار ہے۔ اِس ماہ کے تمام ہی ایّام فضیلت کے حامل اور بابرکت ہیں، تاہم اِس کے آخری عشرے کی...

  • 21  مارچ ،  2025

رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کا ماہِ مبارک ’’رمضان‘‘ رب کے حضور عبادات و مناجات اور نیکیوں کا موسمِ بہار ہے، اس کے شب و...

  • 20  مارچ ،  2025

رمضان المبارک کی پُرنور بہار ہرسُو چھائی ہوئی ہے۔ خیرخواہی، غم گساری، ہم دردی، شکر گزاری، صبر و استقامت کے لیل و نہار...

  • 19  مارچ ،  2025

الحمدُللہ، ہم پر رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ سایہ فگن ہے۔ یہ ماہِ مبارک اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے کہ اِس میں جنّت کے...

  • 19  مارچ ،  2025

رمضان المبارک برکتوں، رحمتوں اور مغفرت کا مہینہ ہے، جو ہمیں صبر، ایثار اور قربِ الٰہی کی خُوب صُورت تعلیمات سے بہرہ مند...