یومِ بابُ الاسلام تجدیدِ عہد اور عزمِ نو کا مظہر

یومِ بابُ الاسلام تجدیدِ عہد اور عزمِ نو کا مظہر
غازی محمد بن قاسمؒ نے باب الاسلام سندھ کی دھرتی پر قدم رکھا اور مختصر عرصے میں اپنی جرأت وفراست، رواداری، حسنِ سلوک اور حکمت و دانش سے یہاں آباد غیر مسلموں کو متاثر کیا، ان کے سروں کو نہیں، بلکہ دلوں کو فتح کیا

10؍رمضان المبارک، اسلامی تاریخی کا ایک اہم دن، جسے ’’یوم باب الاسلام‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس اہم اور تاریخی دن سندھ میں اسلامی جھنڈا لہرا کر پورے سندھ میں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا۔

اسلامی عرب اور خطۂ ہندوپاک کا پہلا واسطہ جس کا ذکر تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے، پہلی صدی ہجری کے نصفِ اوّل میں خلیفۂ دوم حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں ہوا۔ مشہور مؤرخ طبری کے مطابق حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت میں حَکم بن عمرو تغلبی اسلامی فوج لے کر مکران جارہے تھے کہ راستے میں ایرانی فوج نے ان کا مقابلہ کیا، ایرانیوں نے اس مو قع پر سندھ کے راجا سے فوجی مدد لی، جو عربوں کے خلاف صف آراء ہوئی، لیکن اس ابتدائی معرکے میں ایران اور سندھ کی متحدہ فوج کو شکست ہوئی، بعدازاں مختلف مسلم امراء کا بھروچ اور سندھ میں مختلف مقاصد سے آنے کا ذکر ملتا ہے۔ تاریخی حقائق سے اس امر کا پتا چلتا ہے کہ مسلمانوں نے اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے زمانے تک سندھ و ہند پر باقاعدہ لشکر کشی نہیں کی۔

دوسری جانب سندھ پر مشہور ہندو راجا داہر کی حکومت تھی۔ راجا داہر نے اپنے عمل سے بارہا اس کا ثبوت فراہم کیا کہ وہ اسلام اور مسلمان دشمنی میں کسی سے پیچھے نہیں۔ داہر نے اس سے قبل ہی اموی خلافت کے مکران کے لیے نام زد گورنر سعید بن اسلم کے قاتلوں کو پناہ دے کر اسلامی حکومت سے مخالفت کی بنیاد رکھ دی تھی۔

راجا داہر کا طرزِ عمل سب سے جداگانہ اور معاندانہ تھا۔ اس نے آغاز سے اختتام تک معاندانہ راہ اختیار کی۔ اس کے برخلاف ہندوستان کے دوسرے راجاؤں نے ابتدا میں مقابلہ کیا، تاہم بعد میں ہوا کا رُخ دیکھ کر دوستانہ مراسم اور تعلقات قائم کرنے میں عافیت جانی، مگر راجا داہر نے ان کے برخلاف شروع سے مخالفت کی اور آخر تک اس پر اڑا رہا، کچھ ہی عرصے میں سندھ میں ایک اور حادثہ رونما ہوا، جو اموی خلافت کے لیے سخت آزمائش سے کم نہ تھا۔

ان حالات نے حجاج بن یوسف کو اس پر مجبور کردیا کہ وہ ان کے خلاف بھرپور اور مؤثر فوجی اقدام کرے اور ایسا فیصلہ کن معرکہ ہو، جو راجا داہر کی جانب سے مسلمانوں کو آئندہ کے لیے محفوظ اور مطمئن کردے۔ چناں چہ اس نے اپنے نوجوان بہادر بھتیجے اور داماد عمادالدین محمد بن قاسم والی فارس کو چھ ہزار شامی فوج کے ساتھ سندھ کی مہم پر روانہ کیا۔ سندھ وہند میں محمد بن قاسم کی فوجی مہمات اور فتوحات کا دور 92ھ سے 96ھ تک ہے۔ ان کی اولین زندگی کا آغاز میدان جہاد سے ہوا اور انجام بھی اسی پر ہوا۔

اس نے پہلی بار پاک و ہند کے علاقے باب الاسلام سندھ پر قدم رکھا اور مختصر عرصے میں اپنی جرأت، فراست، عسکری مہارت، بہادری، غیرتِ ایمانی، دینی حمیت، رواداری، نرم دلی، حسنِ سلوک اور حکمت و دانش سے یہاں آباد غیر مسلموں کو متاثر کیا، ان کے سروں کو نہیں، بلکہ دلوں کو فتح کیا۔ محمد بن قاسم 711ء کے موسمِ خزاں میں دیبل پہنچا اور شہر کا محاصرہ شروع کیا، مگر راجا داہر کی روش اب بھی نہ بدلی، بلکہ وہ اپنے پورے لشکر و سپاہ کے ساتھ میدانِ جنگ میں اتر آیا۔

اسلامی فوج کو کئی روز تک کام یابی حاصل نہ ہوئی، لیکن بالآخر ’’العروس‘‘ نامی ایک بڑی منجنیق کی مدد سے جسے پانچ سو سپاہی چلاتے تھے، قلعہ فتح ہوگیا۔ محمد بن قاسم نے قلعے پر قبضہ کرکے ان قیدیوں کو رہائی دلائی جو راجا داہر کے زیرِ اثر بحری قزاقوں کی قید میں تھے۔ داہر نے میدانِ جنگ سے راہِ فرار اختیار کرکے حدود سندھ سے باہر ’’کچھ‘‘ میں پناہ لی اور رمضان 93ھ میں ایک خونی معرکے کے بعد میدان جنگ میں کام آگیا۔

یہ فوجی مہم اس لحاظ سے بڑی تاریخی کہی جاسکتی ہے کہ لشکر کشی کے باوجود اس میں مذہبی رواداری اور فراخ دلی کا وہ نمونہ پیش کیا گیا جو اسلام کی حقیقی تعلیم ہے۔ سندھ کی فتح کے بعد غازی محمد بن قاسم نے غیر مسلم مفتوحین، صلح خواہوں اور امن پسندوں سے جو روادارانہ سلوک اور فیاضانہ برتاؤ کیا، وہ دنیا کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔

اس طرح سندھ کو ’’باب الاسلام‘‘ بننے کا شرف حاصل ہوا اور یہاں کے لوگ ظلم و بدامنی کے سیاہ دور کے خاتمے کے بعد رواداری، انسان دوستی، حسنِ سلوک اور اسلام کے مثالی عادلانہ نظام سے آشنا ہونے کے بعد جوق در جوق دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے۔ سندھ اسلام کے نور سے منور ہوا اور یہ علاقہ ’’باب الاسلام‘‘ کہلانے کا حق دار قرار پایا۔

برصغیر میں اسلام اور مسلمانوں کی آمد زندگی کے ہر شعبے میں ایک خوش گوار انقلاب کا مژدہ بنی۔ مسلمانوں کی آمد یہاں رہنے والوں کے لیے ایک نیاپیغام لے کر آئی۔ ایک ایسا پیغام جس میں اخوت و محبت کی چاشنی تھی۔ مروت و رواداری کی خوشبو رچی بسی تھی اور عدل و انصاف کی نوید تھی۔ اس خطے کے رہنے والوں نے جو صدیوں سے ظلم و ستم، معاشرتی ناہمواری اور ذات پات کی اونچ نیچ کا شکار تھے۔

یہ جاں فزا پیغام لانے والے کو خوش آمدید کہا، وہ حلقہ بگوشان اسلام کے حسن اخلاق اور عظمت وکردار کے ایسے گرویدہ ہوئے کہ حملہ آور فاتح محمد بن قاسم کو اپنا نجات دہندہ اور محسن سمجھنے لگے اور اسلام کو اپنے لیے راہ نجات جان کر جوق در جوق اس میں داخل ہونے لگے۔

محمدبن قاسم ایک بہت بڑا مدبّر، بہترین منتظم حرب اور محب اسلام تھا۔ اس نے کئی جنگیں اپنے حسن اخلاق اور بہترین سلوک سے جیتیں، کئی مقامات پر وہاں کے مقامی لوگوں نےاس کے ساتھ جنگ میں شانہ بشانہ شامل ہو کر فتح دلائی۔ یکم رمضان 93ھ کو جنگ کی ابتداء ہو چکی تھی۔ صحیح معنی میں اصل جنگ 7 رمضان سے ہوئی، جنگ کے لیے روانگی کے وقت راجہ نے نجومیوں سے وقت سعد (شگون کی گھڑی) دریافت کیا۔ نجومیوں نے حساب لگا کر بتایا کہ فتح تو عربوں کی نظر آتی ہے۔

اس خبر سے راجہ بہت پریشان ہوا۔ 7 رمضان کو راجہ داہرکے ایک افسر نے اچانک حملہ کر دیا۔ عربوں نے بڑی شجاعت سے اس کی مدافعت کی اور شام تک لڑتے رہے، دوسرے دن 8 رمضان کو ایک دوسرے افسر کے اشارے پر صبح سے شام تک لڑائی جاری رہی۔ 9 رمضان کو راجہ داہر خود جنگ کے لیے نکلا۔

عربی فوج بھی میدان جنگ میں آئی، شام تک جنگ ہوئی، مگر کوئی فیصلہ نہ ہوا۔ 9 رمضان کو ہی سپہ سالا رمحمدبن قاسم نے وصیت کی کہ اگر میں شہید ہو جاؤں تو میری جگہ محرز بن ثابت لیں گے اور اگر وہ بھی نہ رہیں تو سعید تمہارا سپہ سالار ہوگا۔10 رمضان 93ھ صبح کے وقت دونوں فوجیں میدان جنگ پہنچیں۔ داہر کا لڑکا جے سنگھ دس ہزار سواروں کے درمیان کھڑا تھا۔

راجہ داہر سفید ہاتھی پر سوار تھا۔ آس پاس جنگی ہاتھی اسے گھیرے ہوئے تھے۔اِدھر محمد بن قاسم نے اپنی فوج کو جدید طریقے سے ترتیب دیا۔ نماز فجر ادا کر کے صفوں میں سب کھڑے ہوگئے۔ سپہ سالار نے خطاب کیا، خطاب سنتے ہی پوری فوج میں ایک نیا ولولہ، نیا جوش و جذبہ جاگ اُٹھا اور ہر کوئی سب سے پہلے اپنی جان قربان کر کے جام شہادت پینے پر آمادہ ہوگیا، جنگ شروع ہوگئی۔

راجہ داہر نے وقفے وقفےسے تین مرحلوں میں فوج کو میدان میں بھیجا اور تینوں مرتبہ اس کی فوج کو منہ کی کھانی پڑی، اسی دوران چند برہمن آئے اور سپہ سالار سے امان کی درخواست کی جو منظور کرلی گئی، پھر ان ہی کے مشورے پر کہ داہر کی فوج عقب سے غیرمحفوظ ہے، ایک فوجی دستہ ساتھ کریں تو ان کو تباہ کر دیا جائے۔ محمد بن قاسم نے اپنے دو سالاروں کو دستہ کے ساتھ روانہ کیا۔ ایسا شدید حملہ کیا کہ دشمنوں کے پاؤں اُکھڑ گئے۔

عرب فوجی دستے مسلسل دُشمن کی فوج پر نبردآزمائی کرتے رہے۔ آفتاب غروب ہونے کو تھا کہ راجہ داہر کے مقابل ایک مجاہد پہنچا اور اس نے تلوار کا ایسا بھرپور وار کیا کہ تلوار سر سے گردن تک کاٹتی چلی گئی… ادھر آفتاب غروب ہونے لگا اور دوسری طرف راجہ داہر کے اقتدار کا آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔

عربوں نے ہندوؤں کو مکمل مذہبی آزادی دی، اس کے باوجود سندھ کی آبادی کا اچھا خاصا حصہ مسلمان ہوگیا۔ اسلام صرف سندھ تک محدود نہیں رہا، بلکہ گجرات کارومنڈل، مالابار، مالدیپ، لنکا میں بھی اپنے قدم جمانے شروع کردیئے۔ مسلمانوں کی آمد سے قبل یہ خطہ برصغیر کے دیگر ممالک سے الگ تھلگ تھا۔ فتح سندھ سے اس ملک کی یہ علیحدگی ختم ہوگئی۔ سندھ عظیم اسلامی سلطنت کا حصہ بنا اور اس طرح بلاد اسلامیہ کے ساتھ اس کے تعلقات قائم ہوگئے۔

یوم باب الاسلام برصغیر میں اسلام کی آمد اور اشاعت دین کا تاریخ ساز باب ہے۔ یہ اس خطے میں اسلام اور مسلمانوں کی آمد، ان کی تاریخ ساز فتح اور اس خطے کو اسلام کے نور سے منور کرنے کا وہ یادگار دن ہے جو درحقیقت ہمارے لیے دین پر استقامت، اسلام اور اسلامی شعائر پر عمل ،عزم نو اور تجدید عہد کا مظہر ہے۔

Share This:

اسلامی مضامین

  • 01  اپریل ،  2025

کُھلے، نیلے آسمان پر بادل کی ٹکڑیوں کے بِیچ شرماتے، لجاتے ہلال کی جھلک دیکھنا رمضان کی آخری گھڑیوں میں شوق کا امتحان...

  • 31  مارچ ،  2025

’’عیدُالفطر‘‘ امّتِ مسلمہ کا پُرمسرّت دینی و مذہبی تہوار اور اسلام کی ملّی، تہذیبی اور روحانی اقدار کی روشن علامت ہے۔...

  • 30  مارچ ،  2025

عیدالفطر وہ خاص الخاص دِن ہے کہ جس روز اللہ تعالیٰ اپنے چُنیدہ بندوں پر کہ جنہوں نے رمضان المبارک کے روزے رکھے، خشوع و...

  • 30  مارچ ،  2025

’’عیدُالفطر‘‘اہلِ ایمان کے لیے رمضان المبارک کی عبادت و ریاضت کا انعام، اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزے داروں کے اعزاز و...

  • 29  مارچ ،  2025

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: دین کے بارے میں کوئی زبردستی اور جبر نہیں ۔ قرآن پاک نبی کریم ﷺ کو خطاب کرکے ہر مسلمان کو تنبیہ...

  • 28  مارچ ،  2025

حکیم محمد سعید شہیدرحمت و مغفرت کے موسم بہار رمضان کریم کے مقدس اور بابرکت شب و روز کو الوداع کہنے سے قبل ہمیں اس امر کا...

  • 28  مارچ ،  2025

رمضان کا آخری عشرہ خصوصی اہمیت و توجہ کا حامل ہے، خصوصاً ان لوگوں کے لئے جو پہلے دو عشرے اپنی غفلتوں کی نذر کرچکے اور اس...

  • 27  مارچ ،  2025

لیلۃ القدر انتہائی برکت والی ہے، اسے لیلۃ القدر اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں سال بھر کے احکام نافذ کئے جاتے ہیں یعنی فرشتے...

  • 27  مارچ ،  2025

مولانا نعمان نعیم رمضان المبارک جسے رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کا مقدس مہینہ قرار دیا گیا ہے،اپنی تمام تر رحمتوں اور...

  • 26  مارچ ،  2025

یوں تو سال کے 365دِن ہی دُنیا بَھر کی مساجد اللہ تعالیٰ اور اُس کے محبوب پیغمبر، حضرت محمدﷺ کی حمد و ثنا کرنے والوں سے...

  • 25  مارچ ،  2025

" فتح مکہ"رمضان المبارک ۸ ھ میں وقوع پذیر ہونے والا اسلامی تاریخ کا نہایت ہی عظیم الشان واقعہ ہے ، سیرت النبی ﷺ کا یہ وہ...

  • 24  مارچ ،  2025

سرور کونین، فخر موجودات ، محسنِ انسانیت، حضرت محمد ﷺ کے پیغمبرانہ امتیاز اور خصائص میں ایک امتیازی وصف اور آپﷺ کی...

  • 23  مارچ ،  2025

ماہِ رمضان المبارک، اسلامی تقویم کے اعتبار سے نواں مہینہ ہے۔ یہ تمام مہینوں کا سردار ہے اور اس کے فضائل لامحدود ہیں۔ یہ...

  • 22  مارچ ،  2025

سیدنا علی مرتضیٰ ؓ کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ خصائص وامتیازات سے ممتاز فرمایا، آپ کو فضائل وکمالات کا جامع، علوم ومعارف...

  • 22  مارچ ،  2025

رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص ایک دن بھی اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے اعتکاف کرتا ہے تو اللہ اس شخص کے اور دوزخ کے...

  • 22  مارچ ،  2025

خلیفۂ راشد، امیرالمؤمنین، فاتحِ خیبر، حیدرِکرّار، شیرِ خدا، ابو تراب سیّدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی ذاتِ گرامی...

  • 22  مارچ ،  2025

رمضان المبارک تمام مہینوں کا سردار ہے۔ اِس ماہ کے تمام ہی ایّام فضیلت کے حامل اور بابرکت ہیں، تاہم اِس کے آخری عشرے کی...

  • 21  مارچ ،  2025

رحمت، مغفرت اور جہنم سے نجات کا ماہِ مبارک ’’رمضان‘‘ رب کے حضور عبادات و مناجات اور نیکیوں کا موسمِ بہار ہے، اس کے شب و...

  • 20  مارچ ،  2025

رمضان المبارک کی پُرنور بہار ہرسُو چھائی ہوئی ہے۔ خیرخواہی، غم گساری، ہم دردی، شکر گزاری، صبر و استقامت کے لیل و نہار...

  • 19  مارچ ،  2025

الحمدُللہ، ہم پر رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ سایہ فگن ہے۔ یہ ماہِ مبارک اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے کہ اِس میں جنّت کے...