اسلام میں عدل کی بالادستی اور بے لاگ احتساب کا تصور

اسلام میں عدل کی بالادستی اور بے لاگ احتساب کا تصور

مولانا نعمان نعیم

قرآن و سنّت اور اسلامی تعلیمات میں عدل و انصاف کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اسلامی فلاحی مملکت اور مثالی اسلامی معاشرے کا قیام، عدل کی بالادستی اور بلاتفریق مذہب و ملّت انصاف کی فراہمی کے بغیر ناممکن ہے۔قرآنِ کریم میں ﷲ تعالیٰ نے فرمایا: تمہارے رب کی بات سچائی اور عدل کے اعتبار سے کامل ہے۔’’عدل‘‘نہ صرف انسان کی فطرت میں شامل ہے،بلکہ انسان کی ساخت میں بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ ان سب کے بعد ﷲ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب مبین میں عدل کا حکم بھی دیا۔ چناں چہ فرمایا گیا:’’اللہ تعالیٰ عدل اور احسان کا حکم دیتاہے‘‘۔ اسوۂ نبویؐ ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ عدل کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے اور ریاست میں عدل وانصاف کا نظام بے لاگ احتساب کے اصول پر جاری ہو۔

قرآنِ کریم میں ﷲ تعالیٰ نے فرمایا:تمہارے رب کی بات سچائی اور عدل کے اعتبار سے کامل ہے۔’’عدل‘‘نہ صرف انسان کی فطرت میں شامل ہے،بلکہ انسان کی ساخت میں بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ ان سب کے بعد ﷲ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب مبین میں عدل کا حکم بھی دیا: ’’ﷲ تعالیٰ عدل اور احسان کا حکم دیتاہے‘‘۔اسوۂ نبویؐ ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ عدل کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے اور ریاست میں عدل وانصاف کا نظام بے لاگ احتساب کے اصول پر جاری ہو۔ارشاد ربانی ہے:اور حساب لینے کے لیے ﷲ تعالیٰ ہی کافی ہےاوربے شک ﷲ تعالیٰ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔ پس اس دنیا کا اصل محتسب ﷲتعالیٰ ہی ہے۔(سورۃ النساء)مزید فرمایا :اللہ تعالیٰ تمہیں عدل اور احسان کا حکم دیتاہے‘‘۔اس رب کریم نے صرف اسی پر ہی بس نہیں کیا، بلکہ ایک بلند مرتبہ ذات بابرکات ،سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو مبعوث فرمایا،جن کی کل حیاتِ طیبہ اور تعلیمات کے تمام تر مجموعے کواگر عدل کامل کانام دیاجائے تو بے محل نہ ہوگا۔

حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’قیامت کے روز جب اللہ کے سایہ کے سوا کسی کا سایہ نہ ہوگا، حق تعالیٰ سات اشخاص کو اپنے قرب میں خاص سایہ مرحمت فرمائے گا۔ ان میں شرف اوّلیت امام عادل کو حاصل ہوگی۔(صحیح بخاری) حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’عدل کرنے والے اللہ رب العزّت کے پاس نور کے منبروں پر ہوں گے، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے اہل و عیال کے معاملات میں اور جو کام ان کے سپرد ہوں، ان میں عدل کرتے تھے۔‘‘(نسائی) حضوراکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ عادل حاکم کا ایک دن زاہد کی ساٹھ سالہ عبادت سے بہتر ہے۔‘‘(طبرانی)یہ اس لیے کہ زاہد کی عبادت سے صرف اس کی ذات ہی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ عبادت میں استغفار ہوتا ہے۔ یہ اللہ کی صوابدید پر ہے کہ وہ استغفار کی بناء پر بھی بخشے نہ بخشے۔ عادل چیف جسٹس یا عادل سربراہ انتظامیہ کے ایک فیصلے سے بسا اوقات بے شمار انسانوں کو فائدہ پہنچتا ہے اور انصاف کی قدروں کو تقویت ملتی ہے۔ عادل حاکم کی ایک نیکی عظیم ثواب کا موجب ہوگی اور اس کے ایک ظالمانہ فیصلے کا گناہ بھی بے حد و حساب ہوگا۔

’’عدل‘‘ ایک نہایت جامع لفظ ہے۔ اس سے مراد انسان اور انسان کے درمیان عدل ہے۔ کمزور اور طاقتور کے درمیان عدل ہے۔ غریب اور امیر کے درمیان عدل ہے۔ ریاست اور عوام کے درمیان عدل ہے۔ غرض حقوق اللہ، حقوق العباد، حقوق النفس کی ادائیگی و توازن کا نام عدل ہے۔ اگر تمام انسانوں کے باہمی تعلقات کی بنیاد قوّت کے بجائے عدل کو قرار دیا جائے تو ہماری پوری زندگی معاشی، معاشرتی، سیاسی اور بین الاقوامی تمام شعبہ ہائے زندگی کی عمارت اخلاقی بنیادوں پر مستحکم ہوسکتی ہے اور فضائے عالم سے جنگ و ظلم کے بادل چھٹ سکتے ہیں۔

احتساب کا مطلب حساب کتاب،گنتی،عیب و صواب کی جانچ پڑتال، بازپرس، دیکھ بھال،جائزہ اور روک ٹوک ہے۔احتساب دراصل ﷲ تعالیٰ کا منصب و مقام ہے ،وہی اس کائنات کو دیکھنے والا ،اس کا حساب کتاب رکھنے والا اور مخلوق کے اعمال کاجائزہ لینے والا ہے۔ ﷲ تعالیٰ کی صفات و اسماء میں سے ایک نام ’’الحسیب‘‘ بھی ہے۔

نبی اکرمﷺ کو جس دور میں مبعوث کیا گیا۔ اس وقت ہر طرف ظلم وزیادتی اور ظلم وستم کے اندھیرے چھائے ہوئے تھے۔عدل وانصاف اور برابری و مساوات کا تصور تک نہیں تھا۔ ایسے میں اللہ رب العزت نے نبی اکرم ﷺکو عدل وانصاف کا علم بردار بنا کر مبعوث فرمایا، چناںچہ قرآن کریم میں آپ ﷺ کی زبانی اعلان کروایا گیا ’’ مجھے حکم دیا گیا کہ میں تمہارے درمیان عدل و انصاف سے فیصلہ کروں۔‘‘

نبی اکرم ﷺکایہ بے لاگ عدل اور احتساب کا تصور جب معاشرے میں جگہ پاتاہے تو وہ معاشرہ مدینۃالنبی کی پاکیزہ و مقدس ریاست بن جاتاہے۔ محسن انسانیت ﷺ نے دوستوں اور دشمنوں پر بہت احسانات کیے،لیکن عدل کے معاملے میں کسی سے کوئی رعایت نہیں کی، محسن انسانیت ﷺ کی ختم نبوت کا ایک حسین پہلو یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ نے عدالتوں کو عدل و احتساب کا درس دیا، یہ سبق آپ ﷺ کی ذات بابرکات سے پہلے دنیا سے عنقا ہوچکا تھا اور انسانیت عدل و انصاف کو فراموش کر چکی تھی۔

آپ ﷺ نے عدل کے اطلاقی پہلو یعنی بے لاگ احتساب کے لیے سب سے پہلے اپنی ذات کو پیش کیا،اس سے بڑھ کر عدل و احتساب کی کوئی مثال کہاں مل سکتی ہے کہ عمرمبارک کے آخری ایّام میں آپ ﷺ نے خود کو پیش کر دیاکہ میرے ہاتھوں کسی سے زیادتی ہوئی ہو تووہ اپنا بدلہ چکاسکتاہے۔ایک صحابیؓ آگے بڑھےاورعرض کیا، ایک جنگ کے موقع پرآپ ﷺنے صفیں سیدھی کرتے ہوئے میری کمر پر چھڑی رسید کی تھی۔

جب آپ ﷺ نے اپنی کمر مبارک سے کرتا ہٹایا اور فرمایاکہ آؤ اپنا بدلہ لے لو،وہ صحابی آئے اور کمرمبارک سے لپٹ کر مہرنبوت کو بوسے دینے لگےاور پھر انہوں نے کہا، میں تو دراصل اس بہانے مہر نبوت کا بوسا لیناچاہتا تھا۔ آپﷺ نے سود کو باطل قرار دیا، لیکن سب سے پہلے اپنےحچا حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب کا سود معاف کیا، خون معاف کرنے کی روایت کا آغاز کیا اور سب سے پہلے اپنے چچا حضرت حمزہؓ بن عبدالمطلب کاخون معاف کیا اورغلام آزاد کرنے کا حکم دیا تو سب سے پہلے غزوۂ حنین کے موقع پر اپنے غلام آزاد کیے۔عدل و احتساب کی یہ مثال آج بھی دنیا کے قوانین میں ناپید ہے۔

آپﷺ کی شان یہ ہے کہ آپﷺ نے عدل، مساوات اور احتساب کو بنیادی اہمیت دی۔ ریاست مدینہ کے قیام کا بنیادی دستور بے لاگ عدل اور احتساب کو قرار دیا۔ آپﷺ نے ریاستِ مدینہ میں بے لاگ عدل کو نافذ فرمایا۔ آپ ﷺ نے دین اسلام کے اعلیٰ و ارفع مقاصد کا واضح تعارف اور مؤثر ابلاغ کرتے ہوئے نوع انسانی کو کفر و شرک اور جہالت کے اندھیروں سے ہی نہیں نکالا، بلکہ طبقہ واریت کے جبر،امارت و ثروت کی برتری اور نسلی عصبیت کے زعم باطل کا خاتمہ بھی کیا۔ حضوراکرم ﷺ کے لائے ہوئے نظام کی بنیاد انسانیت پرہے اوراسلام کے تمام پہلو انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں، سزا اور جزا کا تصور صرف اسلام میں نہیں، بلکہ تخلیق انسانیت کے وقت سے یہ تصور ہردور میں رہا ہے۔

انسانی معاشرے کی بقا کا دارومدار اس کے اجزا کے مابین توازن و اعتدال پر ہوتا ہے،جب ان کے مابین عدم توازن پیدا ہو تو اسے معاشرے کے انحطاط سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسی بناء پر قرآن حکیم نے عدل کی قدر پر زور دیا ہے۔حتیٰ کہ انبیائے کرامؑ کی بعثت کا مقصد نظام عدل کا قیام قرار دیا ہے۔ عدل کو تقویٰ کے قریب تر بتایا گیا ہے کہ ﷲ تعالیٰ کے حضور جوابدہ ہونے کا یقین انسان کو حقوق کی ادائیگی کا شعور دیتا ہے۔ رسول ﷲ ﷺکا پیش کردہ عدل کا نظریہ ہی حقوق و فرائض کی میزان ہے۔جس معاشرے میں حقوق و فرائض کا توازن بگڑ جاتا ہے، وہاں ظلم کا نظام اپنی جگہ بنا لیتا ہے۔ عدل کی بالادستی،بے لاگ احتساب کے بغیر ممکن نہیں، بے لاگ احتساب کا مفہوم یہ ہے کہ کسی مفاد اور اندیشے کو خاطر میں لائے بغیر معاملات کو نمٹایا جائے۔

آپﷺ نے محض عدل کی تلقین نہیں کی، بلکہ اس کی ابتدا اپنی ذات سے کی۔رسول ﷲ ﷺنے نہ صرف عدل کی بالادستی کا نظام قائم کیا، بلکہ بے لاگ احتساب کا مثالی اُسوہ بھی پیش کیا اور یہی عصر حاضر کی ضرورت ہے۔نبی اکرم ﷺنے اپنے طرزِ عمل سے صحابۂ کرامؓ کو بھی عدل وانصاف کا نہ صرف یہ کہ درس دیا،بلکہ انہیں عدل وانصاف کا عادی بھی بنا یا۔ اگر ہم سیرت طیبہؐ اور حضرات خلفائے راشدینؓ کے مثالی کردار کی روشنی میں آج کے حالات اور ماحول کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت بالکل الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔

نبی اکرم ﷺنے جس معاملے کو سابقہ قوموں کے زوال اور ہلاکت کا سبب قراردیا تھا، آج وہی منظر ہمارے ہاں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ملک سے بدامنی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اسلام کے بے لاگ عدل کے تصور کو نافذ کرنا ہوگا جس میں کمزور اور طاقتور، بااثر اور ایک عام فرد سب قانون کے کٹہرے میں مساوی نظر آئیں ،ہر فرد کو انصاف میسر ہو اور ہر فرد سے پورا پورا انصاف کیا جائے ،انصاف کا دہرا معیار اور بے لاگ عدل کے تصور کا خاتمہ کسی بھی معاشرے کی تباہی کی بنیاد ہے۔

Share This:

اسلامی مضامین

  • 13  اپریل ،  2024

مفتی محمد راشد ڈسکویآج کل ہر طرف مہنگائی کے از حد بڑھ جانے کے سبب ہر بندہ ہی پریشان نظر آتا ہے، کسی بھی مجلس میں شرکت کی...

  • 13  اپریل ،  2024

مولانا نعمان نعیمرسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ایک بالشت برابر زمین بھی ظلماً لی ، قیامت کے دن اُسے سات زمینوں...

  • 12  اپریل ،  2024

حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا دن...

  • 11  اپریل ،  2024

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:یہ بیچارے غلام اور ملازم...

  • 10  اپریل ،  2024

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے احسان کا شکریہ...

  • 10  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم.حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے۔ انہوں نے فرمایا :دعا آسمان اور زمین کے...

  • 09  اپریل ،  2024

حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب شب قدر آتی ہے تو جبرئیل علیہ...

  • 09  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلمحضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہٗ کا بیان ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے...

  • 09  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلمحضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہٗ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ...

  • 08  اپریل ،  2024

مولانا سیّد سلیمان یوسف بنوریآپ کے مسائل اور اُن کا حلسوال: ہمارا گاڑیوں کی خریدوفروخت کا کاروبار ہے۔ ایک اور شخص ب نئی...

  • 08  اپریل ،  2024

ماہ شوال کے چھ روزے، جو شوال کی دُوسری تاریخ سے شروع ہوتے ہیں، مستحب ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:...

  • 08  اپریل ،  2024

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری...

  • 08  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلمجناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے، جو شخص عید کے دن تین سو مرتبہ سبحان...

  • 07  اپریل ،  2024

مفتی محمد مصطفیٰحضرت سہل بن سعدؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا :’’میری امت کے لوگ بھلائی پر رہیں گے، جب تک وہ روزہ...

  • 07  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلمحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو...

  • 07  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلمحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:...

  • 07  اپریل ،  2024

مولانا نعمان نعیم’’زکوٰۃ‘‘ اسلام کےبنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ قرآن وسنت میں زکوٰۃ کی فرضیت اور فضیلت و...

  • 06  اپریل ،  2024

سید صفدر حسینامام موسیٰ کاظمؒ، حضرت امام جعفر صادقؒ کے صاحبزادے ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ حمیدہ بربریہ اندلسیہ تھیں۔ آپ...

  • 06  اپریل ،  2024

مولانا اطہرحسینیو ں تو اس کارخانۂ عالم کی سب ہی چیزیں قدرت کی کرشمہ سازیوں اور گلکاریوں کے ناطق مجسمے، اسرارورموز کے...

  • 06  اپریل ،  2024

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ کا سہارا لگائے بیٹھے...