سرورِ کونین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا سفرِ معراج اور اُس میں رُونما ہونے والے واقعات و مشاہدات

سرورِ کونین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا سفرِ معراج اور اُس میں رُونما ہونے والے واقعات و مشاہدات

مولانا محمد قاسم رفیع

ماہِ رجب المرجب اسلامی تقویم کا ساتواں مہینہ ہے۔ اس کا آغاز ہوتے ہی آنحضرتﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے:’’اللّٰہم بارک لنا فی رجب و شعبان وبلغنا رمضان۔‘‘ترجمہ: ’’یا اللہ! ہمارے لئے رجب اور شعبان کے مہینوں میں (خصوصی) برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان کی آمد تک خیریت کے ساتھ رکھ۔‘‘(بیہقی)

اس بناء پر یہ مہینہ اہل ایمان کے لئے خوشی و مسرت کا موجب ہے کہ اس کے آتے ساتھ ہی رمضان کے مبارک مہینے کی منزل قریب نظر آنے لگتی ہے اور ہر مومن اس مہینے کی تیاری کے لئے پُرجوش ہوجاتا ہے۔ یہ مہینہ دو مزید وجوہ سے خصوصیت کا حامل ہے، ایک تو اس کا شمار حرمت والے ان چار مہینوں میں ہوتا ہے جو زمانۂ جاہلیت میں بھی اہلِ عرب کے نزدیک محترم سمجھے جاتے تھے اور ان مہینوں میں جنگیں، لڑائیاں وغیرہ سب ممنوع ہوتا تھا۔ یہ چار ماہ رجب المرجب، ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم الحرام ہیں۔ نیز ماہ رجب کی عظمت کی دوسری وجہ جو اسے باقی تمام مہینوں سے ممتاز کردیتی ہے، یہ ہے کہ اس مبارک مہینے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب نبی ،پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کو معراج کرائی تھی۔

حضور اکرم ﷺ جیسے تمام نبیوں کے سردار ہیں، ایسے ہی آپ کا دین بھی تمام ادیان پر فوقیت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری دین اسلام کی حقانیت کو مبرہن کرنے کے لئے آنحضرت ﷺ کو معجزے بھی ایسے عطا فرمائے جو آپ کی عظمت کا پھیریرا صرف اس جہاں میں نہیں، بلکہ تمام جہانوں میں لہرادیں، ان معجزات جن کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔ (بحوالہ: ’’ ترجمان السنۃ‘‘ ) ان میں ایک تو اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ’’قرآن کریم‘‘ ہے جو اپنے نزول سے آج تک ہر دور میں زندہ وتابندہ معجزہ چلا آرہا ہے اور دوسرا معجزہ جس نے حضور اکرم ﷺ کو سرِعرش سربلند کردیا ‘ ’’معراج‘‘ ہے۔

معراج کا واقعہ قرآن کریم میں دو مقامات پر مذکور ہے۔ ایک سورئہ بنی اسرائیل کی پہلی آیت کریمہ میں اور دوسرا سورئہ نجم کی ابتدائی آیات کریمہ میں، نیز سورئہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۶۰ بھی اس واقعہ کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً ۴۵ صحابہ کرامؓ نے واقعہ معراج کی تفصیلات کو بیان کیا ہے، جن میں حضرت عمر فاروق، حضرت علی المرتضیٰ، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابی بن کعب، حضرت ابو ہریرہ، حضرت انس، حضرت حذیفہ بن یمان، حضرت ابوذر غفاری وغیرہم رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین ایسے جلیل القدر اصحاب رسول شامل ہیں۔

نیز تابعین عظام میں سے سعید بن جبیر، ضحاک، قتادہ، ابن مسیب، حسن بصری، ابراہیم نخعی، مسروق، مجاہد، عکرمہ اور ابن شہاب رحمہم اللہ تعالیٰ ایسے مفسرین، محدثین اور فقہائے امت بھی واقعۂ معراج کے راوی ہیں، بلکہ اس معراج کا تذکرہ تو پہلے انبیاء کے صحیفوں میں بھی ملتا ہے، چنانچہ مؤلف ِ’’ ترجمان السنۃ ‘‘ حضرت مولانا سیّد محمد بدر عالم میرٹھی مہاجر مدنی نوراللہ مرقدہ، شیخ الاسلام علامہ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں کہ حضرت دانیال علیہ السلام نبی اللہ نے کہا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ بنی اسرائیل کا حال مجھ سے بیان فرمایئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے حالات بیان فرما دیے، یہاں تک فرمایا کہ میں بنی اسماعیل میں ایک نبی اٹھائوں گا جس کی بشارت میں نے حضرت ہاجرہ سلام اللہ علیہا کو دی، پھر اس نبی کی صفات ذکر کیں، یہاں تک فرمایا کہ میں شب میں اسے بلائوں گا اور اسے اپنے قریب کرکے اس پر صلوٰۃ وسلام بھیجوں گا اور اسے وحی کے ذریعہ اسرارپنہاں سے آگاہ کروں گا، اس کے بعد شاداں و فرحاں اپنے بندوں کے پاس اسے پھر واپس کروں گا۔ اس کے بعد حضرت دانیال علیہ السلام نے آپﷺ کا پورا قصہ ذکر فرمایا۔ (’’ الجواب صحیح ‘‘ بحوالہ: ’’ترجمان السنۃ‘‘ ، ج:۳، ص:۴۵۸)

چنانچہ قرآن کریم، سنت نبویہ اور انبیائے سابقین علیہم السلام کی تصریحات کی روشنی میں واقعۂ معراج ہمارے سامنے یوں نکھر کر آ جاتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ جب اہل مکہ کی تکذیب سے مضطرب ہوکر طائف تشریف لے گئے ،تاکہ اہل طائف کو ایمان کی دعوت دی جائے، مگر ان کے ستانے ، ظلم و ستم اور جھٹلانے سے کبیدہ خاطر آپ واپس مکہ مکرمہ تشریف لائے تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی تسلی و تالیف قلب کے لئے آپ کو اپنی ملاقات کے لئے یاد فرمایا۔یہ سال حضور اکرم ﷺ کے لئے عام الحزن تھا، کیونکہ آپ کے محبوب چچا اور آپ کے سرپرست اور ظاہری اسباب میں مضبوط پشت پناہ جناب ابو طالب اور آپ کی زوجہ مطہرہ ، اسلام کی پہلی فرد، نبوت کی پہلی مددگار، آپ کی ہمدرد و غمگسار،آپ کو دلاسہ دے کر پہلی وحی کا بارگراں ہلکا کرنے والی ام المؤمنین سیدۃ المسلمین حضرت خدیجۃ الکبریٰ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا رحلت فرمائے عالم آخرت ہوچکے تھے۔ غرض یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر کے غموں کو ہلکا کرنے اور جھٹلانے والے مشرکین و کفار کی نگاہ میں سربلند کرنے کے لئے آپ کو سر عرش اپنا مہمان بنایا۔

نبوت کے تیرہویں سال جب حضور اکرم ﷺ کی عمر مبارک ۵۲ برس تھی، رجب کی ۲۷ تاریخ بدھ کی شب کو یہ واقعہ اس وقت پیش آیا، جب آپ اپنی چچازاد ہم شیر، جناب ابو طالب کی دختر اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خواہر حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کے گھر میں آرام فرماتھے۔ حضرت مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے بتایا کہ میرے پاس ایک فرشتہ آیا، اس نے میرا سینہ چاک کرکے میرا دل باہر نکالا اور اسے ایمان و حکمت سے بھرے ہوئے سونے کے طشت میں رکھ کر آبِ زمزم سے دھویا، پھر دل اس کی جگہ واپس رکھ دیا۔ اس کے بعد حضرت جبرائیل امین علیہ السلام سفید رنگ کا ایک جانور جو خچر سے کچھ چھوٹا اور گدھے سے ذرا بڑا تھا،لے کر حاضر خدمت ہوئے، یہ براق تھا جو اس قدر سبک رفتار تھا کہ جہاں تک انسانی نگاہ کی حد ہوتی ہے، وہاں اس کا ایک قدم پڑتا ۔ براق پر سوار ہوکر آپ ﷺ سفر معراج پر روانہ ہوئے۔

دورانِ سفر آپ کا گزر یثرب پر ہوا، یہاں آپ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے کہنے پر نماز ادا کی، یہی جگہ بعد میں آپ کا مسکن ٹھہری جب آپ ہجرت فرماکر یہاں تشریف لائے اور یثرب کی بجائے ’’مدینۃ النبی‘‘ کہلائی اور اب یہی مقام آپ ﷺ کا مدفن اور مہبط انوار و کرم ہے، پھر آپ مدین، بیت اللحم اور کوہِ طور سے بھی گزرے اور ان مقامات پر بھی آپ ﷺ نے نماز ادا فرمائی، مدین اور کوہِ طور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت سے اور بیت اللحم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مولَد ہونے کی وجہ سے باعث شہرت ہیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ بیت المقدس پہنچے اور براق کو اس کھونٹے سے باندھا ،جس سے پہلے انبیائے کرام علیہم السلام اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے، یہ جگہ ’’بابِ محمد‘‘ کہلاتی ہے۔

بیت المقد س (مسجد اقصیٰ) میں حضرت آدم تا حضرت عیسیٰ علیہم السلام تمام انبیاء و رسل جمع تھے، حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضور اکرم ﷺ کا ہاتھ پکڑ کر مصلّے پر کھڑا کردیا، آپ نے نماز پڑھائی اور یوں آپ ﷺ ’’امام الانبیاء‘‘ کے منصب نشین ہوگئے۔ نماز کے بعد جب فرشتوں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ یہ کون ہستی ہیں؟ تو حضرت جبرائیل امین علیہ السلام نے آپ ﷺ کا تعارف بایں الفاظ کرایا: ’’یہ محمد رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔‘‘ (بحوالہ نشرالطیب از حضرت تھانویؒ)

گویا معراج کے اس سفر میں آپ ﷺ کی ختم نبوت کا اعلان ہوگیا۔ تمام انبیاء و رسل کا آپ کے پیچھے نماز پڑھنا بھی اس امر کی دلیل ہے کہ آپ کے بعد نبی کوئی نہیں، اگر ہوتا تو بیت المقدس میں صف ِانبیاء میں شامل ہوتا۔

نماز سے فارغ ہوکر آنحضرت ﷺ نے تمام انبیائے کرام علیہم السلام سے ملاقات کی، اس کے بعد بعض انبیاء نے خود پر ہونے والے انعامات خداوندی کا ذکر کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آتش نمرود کے ٹھنڈا ہو جانے، ’’ خلیل اللہ ‘‘ کے شرف سے مفتخر ٹھہرنے، دعائے امامت قبول ہونے کا تذکرہ کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تورات کے نزول، فرعون کی ہلاکت و بنی اسرائیل کی آزادی، ’’ کلیم اللہ ‘‘ کا لقب پانے کا اعزاز بیان فرمایا۔ حضرت دائود علیہ السلام نے اپنی گفتگو میں عظیم الشان بادشاہی، زبور کا علم، لوہانرم ہونا، پہاڑوں اور پرندوں کا لحنِ دائودی سن کر مسحور ہونا بتایا۔

حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہوا، جنات کے مسخر ہونے، چرند و پرند کی بولی اور ایسی سلطنت ملنے پر خدا کا شکر ادا کیا جو ان کے بعد کسی کو نہیں ملی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے سلسلۂ کلام میں خود کے’’ کلمۃ اللہ ‘‘ ہونے، حضرت آدم علیہ السلام کے مثل ہونے، بے جان میں روح پھونکنے، جذامی و اندھے کو صحت یاب کردینے، شیطان مردود سے اپنے اور اپنی والدہ بی بی مریم سلام اللہ تعالیٰ علیہا کے محفوظ ہونے اور انجیل عطا ہونے پر خدا کے احسانات گنوائے۔

آخر میں حضور اکرم ﷺ نے اپنی تقریر میں ارشاد فرمایا: آپ سب نے اپنے رب کی حمد و ثنا کی، میں بھی اپنے رب کی تعریف بیان کرتا ہوں، تمام تعریفیں اس رب العالمین کے لئے ہیں جس نے مجھے رحمۃ للعالمین اور تمام لوگوں کے لئے بشیر و نذیر بناکر بھیجا اور مجھ پر قرآن مجید فرقانِ حمید نازل فرمایا اور میری امت کو ایسا بنایا کہ وہ (رتبے کے اعتبار سے) اول بھی ہے اور (دنیا میں آنے کے لحاظ سے) آخر بھی ہے۔ میرے سینے کو فراخ فرمایا اور میرا بار مجھ سے ہلکا فرمایا اور میرے ذکر کو بلند کردیا اور مجھے سب کا شروع کرنے والا اور سب کا ختم کرنے والا بنایا ۔ آپ ﷺ کے خطاب کے بعد ابوالانبیاء خلیل اللہ سیّدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تمام نبیوں کی طرف سے آپ ﷺ کی فضیلت کا اعتراف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’آپ ان بیان کردہ کمالات کی وجہ سے تمام انبیاء پر سبقت لے گئے۔‘‘

بیت المقدس سے باہر تشریف لانے کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ کی خدمت میں دو یا تین پیالے پیش کئے، ایک دودھ کا، دوسرا شہد کا اور تیسرا شراب کا تو آپﷺ نے دودھ کا پیالہ پسند فرمایا، اس انتخاب پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: ’’آپ نے فطرت کو پسند کیا۔‘‘مسجد حرام (مکہ مکرمہ) سے مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) کا یہ سفر قرآن کریم کی اصطلاح میں ’’اسراء‘‘ کہلاتا ہے۔ اسراء کا معنی ہے: ’’رات کے وقت سفر کرنا‘‘۔

یہ سفر معراج کا پہلا مرحلہ تھا جو مسجد حرام سے شروع ہوکر بیت المقدس تک طے ہوا۔ اس کے بعد سفر کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا اور حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ ﷺ کو لے کر آسمانوں پر چڑھنا شروع ہوئے۔ آسمانوں پر ہمارے آقا و مولیٰ حضور اکرم ﷺ جب تشریف لے گئے ہیں تو ہر آسمان پر باقاعدہ دستک دی جاتی، دروازے پر مامور فرشتہ تعارف کرانے کو کہتا، آنحضرت ﷺ کی آمد کا سن کر پوچھتا کہ اللہ کے حکم سے آئے ہیں یا خود تشریف آوری ہوئی ہے؟

حضرت جبرائیل علیہ السلام ہر سوال کا جواب دیتے، نام بتاتے، اللہ کا حکم سناتے تو دروازہ کھلتا، اجازت ملتی، خوش آمدید کہا جاتا، اندر تشریف لے جاتے ہی جو بھی نبی وہاں تشریف فرما ہوتے، آپ ﷺ انہیں سلام کرتے، وہ سلام کا جواب دیتے اور مرحبا کہتے۔ پہلے آسمان پر حضرت آدمؑ، دوسرے پر حضرت یحییٰ ؑو عیسیٰؑ، تیسرے آسمان پر حضرت یوسفؑ، چوتھے پر حضرت ادریسؑ، پانچویں پر حضرت ہارونؑ، چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ ؑ اور ساتویں پرحضرت ابراہیم ؑسے ملاقات ہوئی ۔یہ قصہ تفصیل کے ساتھ بخاری و مسلم کی طویل روایتوں میں مروی ہے۔

ساتویں آسمان کے بعد حضور اکرم ﷺ کو سدرۃ المنتہیٰ کی طرف لے جایا گیا۔ یہ وہ مقام ہے جو حدِّ فاصل اور آخری حد و انتہا کہلاتا ہے، یعنی نیچے سے آنے والے اس جگہ سے اوپر نہیں جاسکتے اور اوپر سے آنے والے اس سے نیچے جانے کی اجازت نہیں پاتے۔ ’’سدرہ‘‘ عربی زبان میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں، مگر اسے دنیا کی بیری کی طرح نہیں سمجھنا چاہیے، یہاں محض نام کا اشتراک ہے، کیونکہ اس جہاں کی اشیاء اس دنیا کی آنکھ میں سمانے والی نہیں۔ سدرۃ المنتہیٰ کی جڑیں چھٹے آسمان میں پیوست ہیں اور پھیلائو ساتویں آسمان میں ہے۔

دنیاوی اعمال یہیں سے اوپر جاتے ہیں اور آسمانی احکام بھی ادھر ہی سے نیچے اترتے ہیں۔ سدرۃ المنتہیٰ پر فرشتوں نے آنحضرت ﷺ کی زیارت کی، چناں چہ سورۃ النجم میں ارشاد باری ہے: ’’جب چھا رہا تھا اس بیری (کے درخت) پر جو کچھ چھا رہا تھا۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کے انوار و برکات اور تجلیات اور فرشتوں کا ہجوم اس جگہ کو گھیرے ہوئے تھا۔ اس درخت کے اردگرد سنہرے پروانے تھے، جن سے حسن و جمال کا وہ منظر بنا ہوا تھا، جس کی تصویر کشی ممکن نہیں۔

بخاری شریف کی روایت کے مطابق سدرۃ المنتہیٰ پر چار نہریں ہیں، دو اندر کی جانب جو جنت کو جارہی ہیں اور دو باہر کی جانب، جن کا رخ دنیا کی طرف ہے اور یہ نیل و فرات ہیں۔ اس کے بعد آپ ﷺ کو حوض کوثر دکھایا گیا جو ساتویں آسمان کی بالائی سطح پر ہے۔ یہ اس قدر صاف و شفاف ہے کہ اس میں یاقوت، زمرجد اور موتیوں کے پیالے ہیں اور سبز رنگ کے پرندے وہاں چہچہاتے ہیں۔ اس کا پانی زمرد اور یاقوت کے سنگریزوں پر بہتا ہے، یہ پانی شہد سے زیادہ میٹھا، دودھ سے بڑھ کر سفید اور مشک سے فرو تر خوشبودار ہے۔ حوض کوثر کا پانی آپ ﷺ روزِ قیامت اپنے امتیوں کو پلائیں گے ۔ اللہ ہمیں بھی انخوش بختوں میں سے کر دے، آمین! اس کوثر کا ذکر قرآن کریم میں ہے اور ایک مکمل سورت اس کے نام سے معنون ہے۔

شب معراج میں آپ ﷺ کو بارگاہ الٰہی سے دو تحفے ملے، ایک سورۃ البقرہ کی آخری دو آیتیں اور دوسرا نماز کی فرضیت۔ اس وقت پچاس نمازیں فرض کی گئیں، مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورے پر کہ لوگ ادا نہیں کر پائیں گے، بار بار تخفیف کرائی گئی اور کم ہوتے ہوتے تعداد پانچ رہ گئیں، جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پانچ میں بھی تخفیف کرانے کی رائے دی تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ اب مجھے شرم آتی ہے، چناںچہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ارشاد ہوا کہ ہم ان پانچ نمازوں پر ثواب پچاس کا عطا فرمائیں گے۔ جو ایک نیکی لے کر آئے ،اسے دس گنا بڑھا کر اجر ملے گا، قاعدہ خداوندی ہے۔

Share This:

اسلامی مضامین

  • 28  مارچ ،  2024

عمران احمد سلفیارشادِ باری تعالیٰ ہے : جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا...

  • 28  مارچ ،  2024

مولانا نعمان نعیمدنیا کے تمام ادیان و مذاہب میں دین اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ آخری الہامی مذہب ،دین فطرت اور دین...

  • 28  مارچ ،  2024

محمد عبدالمتعالی نعمانرمضان کریم کے بابرکت اور مقدس ایام کے اختتام پر آنے والی رات ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ یعنی شب...

  • 28  مارچ ،  2024

مولاناڈاکٹر سعیدا حمد صدیقی’’اعتکاف‘‘رمضان المبارک کی مسنون اور اہم عبادت ہے ،جسے فرض کفایہ کا درجہ حاصل ہے۔احادیثِ...

  • 27  مارچ ،  2024

پروفیسر خالد اقبال جیلانیاس سال کے رمضان المبارک کا آغاز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھیانک معاشی ماحول میں ہورہا ہے۔...

  • 27  مارچ ،  2024

ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری ’’نمازِ تراویح‘‘ نبی کریم ﷺ کی سنّت ہے اور احادیث مبارکہ میں اس کی فضیلت آئی ہے۔ حضرت ابو...

  • 27  مارچ ،  2024

حضرت سلامہ بن قیصر حضرمی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی...

  • 27  مارچ ،  2024

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’حجاج اور معتمرین اللہ کے...

  • 26  مارچ ،  2024

پروفیسر خالد اقبال جیلانیرمضان المبارک کا مہینہ اہلِ ایمان کے لئے سراپا رحمت ہے ، یہ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے...

  • 26  مارچ ،  2024

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ جب رمضان شریف آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ ...

  • 26  مارچ ،  2024

مفتی محمد راشد ڈسکویآج کل ہر طرف مہنگائی کے از حد بڑھ جانے کے سبب ہر بندہ ہی پریشان نظر آتا ہے، کسی بھی مجلس میں شرکت کی...

  • 26  مارچ ،  2024

اسلام دین رحمت،نظام فطرت اور مذہب انسانیت ہے،اس کی تعلیمات بنی نوع آدم کی فلاح اور نجات کی حقیقی ضامن ہیں۔ قرآن کریم...

  • 25  مارچ ،  2024

ڈاکٹر حافظ محمد ثانیاسلام دین رحمت،نظام فطرت اور مذہب انسانیت ہے،اس کی تعلیمات بنی نوع آدم کی فلاح اور نجات کی حقیقی...

  • 24  مارچ ،  2024

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ نے...

  • 24  مارچ ،  2024

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:روزہ آدھا صبر ہے۔ حضرت...

  • 24  مارچ ،  2024

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:’’جو شخص ایمان و...

  • 24  مارچ ،  2024

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے آخر میں ہمارے سامنے خطبہ دیتے...

  • 23  مارچ ،  2024

مفتی غلام مصطفیٰ رفیقماہِ رمضان ہزاروں رحمتوں اوربرکتوں کو اپنے دامن میں لئے ہم پرسایہ فگن ہونے والا ہے، یہ بابرکت...

  • 23  مارچ ،  2024

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ایک صاحب حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے،...

  • 23  مارچ ،  2024

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کا...