مصائب و مشکلات میں صبر و استقامت پر بے شمار اجر و ثواب کی بشارت

مصائب و مشکلات میں صبر و استقامت پر بے شمار اجر و ثواب کی بشارت

مولانا نعمان نعیم

قرآن کریم میں اہل ِایمان پر آنے والے مصائب ،مشکلات اور آزمائشیں درحقیقت امتحان کا درجہ رکھتی ہیں۔ یعنی اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے کہ وہ ایسے حالات میں کیا طرزِ عمل اختیار کریں گے اور آخر کار ایسے بندگان خدا کو بے شمار اجر و ثواب کی نوید سنائی گئی۔ اس حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اور ضرور آزمائیں گے ہم تمہیں کسی قدر خوف اور بھوک سے اور (مبتلا کرکے) نقصان میں مال وجان کے اور آمدنیوں کے اور خوش خبری دو صبر کرنے والوں کو، وہ (صبر کرنے والے)کہ جب پہنچتی ہے، اْنہیں کوئی مصیبت ،تو کہتے ہیں، بے شک ،ہم اللہ ہی کے ہیں اور بے شک ،ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، (دراصل) یہی وہ لوگ ہیں کہ اْن پر ہیں عنایتیں اْن کے رب کی اور رحمتیں بھی اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں۔ (سورۃ البقرہ، ۱۵۵تا۱۵۷)

ان آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو متنبہ فرمایا ہے کہ اسے مختلف چیزوں کےذریعے ضرور بالضرور آزمایا جائے گااور جو ان آزمائشوں پر صبر کرتے ہوئے پورا اترے گا،اسے رحمت و مغفرت کی بشارت دی گئی ہے۔ احادیثِ مبارکہ کے مطابق تکلیفوں پر صبر ثواب میں اضافے کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا بھی ذریعہ ہے۔

جامع ترمذی میں رسول اکرم ﷺ کا یہ ارشاد مروی ہے کہ’’ ثواب میں اضافہ مصیبتوں کے ساتھ ہے اور فرمایا کہ اللہ جب کسی قوم سے محبت کرتاہے تو انہیں کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلا کردیتا ہے اور جو راضی رہتا ہے، اس کے لیے اللہ کی رضا ہے اور جو ناراض ہوجاتا ہے، اس کے لیے اللہ کی ناراضی ہے‘‘۔

مصیبت پر صبر کرنے کے حوالے سے کنز العمال میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ تحقیق لوح محفوظ میں پہلی چیز جو کہ اللہ تعالیٰ نے لکھی ہے، وہ یہ ہے، بسم اللہ الرحمن الرحیم اور بے شک، میں ہی معبود ہوں، میرے سواکوئی حاجت روا نہیں ،میرا کوئی شریک نہیں، جس نے میرے فیصلے کو مان لیااور میری دی ہوئی مصیبت پر صبر کیا اور میرے حکم پر راضی رہا ،میں اسے اپنے یہاں صدیق لکھ دیتا ہوں اور اسے قیامت کے دن صدیقوں میں اٹھاؤں گا‘‘۔

رسولِ رحمت ﷺکی اُمت پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سابقہ اُمتوں کے شہیدوں کی طرح اُمتِ محمدیہ میں درجہِ شہادت پانے والوں کو صِرف اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل ہونے والوں تک ہی محدود نہیں رکھا، بلکہ دوسروں کو بھی اِس درجےپر فائز فرمایا ہے۔

انسان کو اس کی اس زندگی میں مختلف پریشانیوں اور مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے، وہ ان مصائب کو کیسے برداشت کرے اور کس طرح ان مسائل سے چھٹکارے اور نجات کی راہ اپنائے۔ ان مصائب کو برداشت کرنے اور ان کو آسان تربنانے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ مومن کے لیے ہر وقت یہ تصور پیشِ نظر رہے کہ یہ دنیادار الامتحان ہے، یہ دائمی گھر نہیں ہے، یہ عمل کی جگہ ہے اور آخرت دارالجزاء ہے، وہاں بدلہ ملے گا، مزدور صبح سے شام تک، کسان بویائی سے کٹائی تک تمام تکالیف، سردی کی شدت، دھوپ کی حدت، اور عمل کی محنت اس لیے برداشت کرتا ہے کہ مزدور کو شام ڈھلنے پر اجرت کی امید اور کسان کو کٹائی کے وقت پھل کی توقع ہوتی ہے، مومن بھی دین پر عمل کی راہ میں مصائب کی بھٹیوں میں اپنے آپ کو اس لیے جلاتا ہے کہ اسے گناہوں کے میل کچیل سے پاک صاف ہوکر دخولِ جنت کی توقع ہوتی ہے، آخرت کے آرام وراحت اور وہاں کی نعمتوں کے مقابلے میں دنیا کے مصائب، بلکہ یہاں کی اعلیٰ سے اعلیٰ درجے کی نعمت بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتی، اللہ کا دستور اس دنیا میں یہ ہے کہ جو بندہ جس قدر اللہ عزوجل کا مقرب ومحبوب ہوتا ہے، اسی قدر اسے اس دنیا کے احوال وپریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے، حدیث میں مومن کے لیے دنیا کو ’’قید خانہ‘‘ قرار دیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ قید خانے میں آدمی کو گھرکی طرح سہولیات وآرام نہیں مل سکتا۔

حضرت سعدؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺسے دریافت کیا گیا کہ مصائب وشدائد میں سب سے زیادہ کون ہوتے ہیں؟ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: سب سے زیادہ مصائب وشدائد میں انبیاءؑ ہوتے ہیں، پھر اس کے بعد درجہ بہ درجہ دوسرے افضل لوگ، آدمی کی اس کی دین داری کے لحاظ سے آزمائش ہوتی ہے، اگر وہ دین میں سخت ہوتا ہے تو اس کی آزمائش بھی سخت ورنہ ہلکی، آدمی پر مصائب کاسلسلہ اس وقت تک رہتا ہے کہ وہ روئے زمین پر بغیر گناہ چلتا ہے (یعنی مصائب کی وجہ سے اس کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں)۔(مشکوٰۃ شریف ۱۳۶)

ایک حدیث میں حضور اکرم ﷺکا یہ بھی ارشاد ہے کہ بڑا بدلہ بڑی آزمائش کے ساتھ ہے، اللہ تعالیٰ جس قوم کو چاہتا ہے، اسے آزمائش میں مبتلا فرماتا ہے، جو شخص اس آزمائش پر اللہ سے راضی رہتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی رہتا ہے اور جو ناراض رہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ناراض ہوتا ہے۔ (ریاض الصالحین)جو شخص مصائب میں دنیا کی عدمِ پائیداری، اس کے مقابل آخرت کی زندگی کے دوام وبقا اور مصائب میں اللہ سے قرب ونزدیکی کے تصور کو ذہن میں رکھے گا، اس کی مشکلیں اس کے لیے کسی حد تک ضرور کم ہوجائیں گی۔

مصائب وآلام اور اس کے دردوکسک کو دور کرنے اور ان مصائب وپریشانیوں کے بادلوں سے لطفِ خداوندی اور عنایاتِ ایزدی کی بارش کے متلاشی کے لیے یہ بھی ایک آسان نسخہ ہے کہ وہ بیماریوں، پریشانیوں، تنگیوں وتنگ دستیوں میں اجرِ خداوندی، ثوابِ آخرت، گناہوں اور خطاوٴں سے پاکی کی بشارتوں کو بھی پیش نظر رکھے، اس طرح اس کے مصائب اس کے لیے ایمان ویقین کی تازگی، فکرِ آخرت میں اضافہ اور پائے ثبات واستقامت میں مضبوطی کا باعث ہوں گے۔

ایک حدیث میں حضورِ اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:”مردِ مومن کو جو بھی دکھ درد، جو بھی بیماری وپریشانی،جو بھی رنج وغم اور جو بھی اذیت وتکلیف پہنچتی ہے، یہاں تک کہ جو کانٹا بھی اسے چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس کے گناہوں کی صفائی کردیتا ہے۔(ریاض الصالحین)

ایک دوسری روایت میں ہے بندہٴ مومن کو جوبھی کانٹے وغیرہ کی تکلیف پہنچتی ہے، تو اللہ عزوجل اس طرح اس کے گناہوں کو جھاڑدیتا ہے، جیسے سوکھا درخت اپنے پتوں کو جھاڑ دیتا ہے۔ (حوالہ سابق)

بعض مومن مرد اور بعض مومن عورتوں پر مصائب وحوادث کبھی ان کی جان، کبھی ان کے مال اور کبھی ان کی اولاد پر اس طرح آتے ہیں کہ (اس کے نتیجے میں ان کے گناہ جھڑجاتے ہیں) اور وہ مرنے کے بعد اللہ عزوجل سے اس حال میں ملتے ہیں کہ ان پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ (مشکوٰۃ شریف ۱۳۶)

دنیا کے مصائب اور آزمائشیں آخرت کے عذاب وعقاب کے مقابلے میں کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں رکھتے، بسا اوقات اللہ عزوجل ان تکالیف وبلیات کے ذریعے بندے کے ساتھ خیر خواہی کا ارادہ فرماتا ہے، وہ اس طرح کہ اسے عذابِ آخرت سے بچانے کے لیے دنیا ہی میں اس کے گناہوں کی سزادے دیتا ہے اور وہ آخرت کے ہولناک وخطرناک عذاب سے بچ جاتا ہے، اس کے بالمقابل جب اللہ عزوجل کسی بندے کے ساتھ برائی کا ارادہ فرماتا ہے تو دنیا میں اس کے گناہوں کی سزاکو روک لیتا ہے، اور اسے روزِ قیامت پوری طرح وصول فرماتا ہے۔ (ریاض الصالحین ۳۳)

کبھی یوں ہوتا ہے کہ ایک بندہٴ مومن اخروی اعتبار سے ایک مقام ومرتبے کاحامل ہوتا ہے، وہ اپنی صحت مند، آرام دہ زندگی کے ساتھ اس مقام ومرتبے کی جانب اس قدر سبک روی اور تیزگامی کے ساتھ بڑھتا ہوا نہیں ہوتا، اللہ عزوجل اسے اس کے طے شدہ مقام تک پہنچانے کا سامان یوں فرماتا ہے کہ اس پر مصائب وحوادث کا بوجھ ڈال کر، اسے اندیشہ ہائے زمانہ اور غم ہائے زمانہ میں مبتلا کرکے اس کے طے شدہ مقام تک پہنچادیتا ہے۔ اسی کو رسول اللہ ﷺ نے یوں فرمایا: جب بندہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ایک مرتبے کا حامل ہوتا ہے، جسے وہ اپنے عمل کے ذریعے حاصل نہیں کرسکتا تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی جان یا مال یا اس کی اولاد میں مصیبت مبتلا فرماتا ہے، پھر اسے ان مصائب پر صبر کی توفیق دیتا ہے، پھر اسے من جانب اللہ طے شدہ مقام تک پہنچادیتا ہے۔ (مشکوٰۃ شریف ۱۳۷)

مصائب کے نعمتِ خداوندی ہونے پر یہ روایت بھی دلالت کرتی ہے:جس وقت روزِ قیامت دنیا میں مصائب برداشت کرنے والوں کو ثواب دیا جارہا ہوگا، اس روز اہلِ عافیت بھی یہ چاہیں گے کہ کاش! ان کے جسم کی کھال دنیا میں قینچیوں سے کاٹی جاتی۔(مشکوٰۃ شریف ۱۳۷)

ایک روایت میں مصائب ومشکلات کے گناہوں کے ازالے میں اثر انگیزی کو بیان کرتے ہوئے حضورِ اکرم ﷺکا ارشادِ گرامی حدیثِ قدسی کی شکل میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ یوں فرماتا ہے: میری عزت وجلال کی قسم! جس شخص کی میں مغفرت اور بخشش کاارادہ کرتا ہوں تو اس کے جسم کو بیماری میں ڈال کر اور اس کی روزی کو تنگ کرکے اس کی ہر غلطی اور گناہ کو مٹاد یتا ہوں۔(مشکوٰۃ ۱۳۸)

جیسا کہ مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ مصائب میں بندۂ مومن کا رجوع اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھ رہا ہے تو یہ مصائب اس کے حق میں رحمتِ خداوندی کے نزول کے عنوان ہیں، لیکن بندہ چونکہ کمزور وناتواں ہوتا ہے، وہ رحمتِ خداوندی کا ادراک نہیں کرسکتا،وہ اپنی آخرت کے بناوٴ وبگاڑکے پہلو سے واقف نہیں ہوتا، وہ دوسروں کی مانند اپنے کو بھی خوشحال وفارغ البال دیکھنا چاہتا ہے اور وہ حقیقت میں بھی مصائب کو برداشت کرنے کی سکت بھی اپنے اندر نہیں پاتا، اس لیے اللہ تعالیٰ سے عافیت کو طلب کرتا رہے، دعاوٴں کے اہتمام کے ذریعے بارگاہِ خداوندی میں اس بات کی التجاکرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی بیماری کی نعمت کو صحت کی نعمت اور بے روزگاری کی نعمت کو روزگاری کی نعمت سے بدل دے، دراصل اللہ تعالیٰ بندے کو مبتلائے مصیبت کرکے اس کی عاجزی وبندگی کے مظاہرے کو دیکھنا چاہتا ہے، ظاہر ہے دعا سے بڑھ کر اپنی عاجزی وبے بسی کا اظہار بندہ اپنے دوسرے اعمال کے ذریعے کہاں کرسکتا ہے؟ بلکہ دعا کو احادیث میں حاصلِ عبادات قرار دیا گیا ہے۔

مصائب میں مبتلا شخص ان دعاوٴں کا خوب اہتمام کرتا ہے:”اَللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ اَرْجُوْ فَلَا تَکِلْنِیْ الٰی نَفْسِیْ طَرْفَةَ عینٍ وَاَصْلِحْ لِیْ شَانِی کُلَّہ لااِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ“اے اللہ! میں تیری رحمت کی امید کرتا ہوں تو مجھے پل بھر بھی میرے سپرد نہ کر اور میرا سارا حال درست فرمادے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔”یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ بَرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ“ اے زندہ اور اے قائم رکھنے والے! میں تیری رحمت کے واسطے سے فریاد کرتا ہوں۔”اَللہُ، اَللہُ رَبِّیْ، لَااُشْرِکُ بِہ شَیئًا۔“ اللہ! اللہ میرا رب ہے، میں اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں بناتا۔ ان دعاؤں کو مصائب اور پریشانیوں کے دفاع میں خوب اثر ہے، حضورِ اکرم ﷺ نے حضراتِ صحابہؓ کو مصائب اور مشکلات کے وقت ان ہی دعاؤں کی تلقین فرمائی تھی۔(حیاۃ الصحابہ عربی :۳/۵۳۱)

Share This:

اسلامی مضامین

  • 13  اپریل ،  2024

مفتی محمد راشد ڈسکویآج کل ہر طرف مہنگائی کے از حد بڑھ جانے کے سبب ہر بندہ ہی پریشان نظر آتا ہے، کسی بھی مجلس میں شرکت کی...

  • 13  اپریل ،  2024

مولانا نعمان نعیمرسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے ایک بالشت برابر زمین بھی ظلماً لی ، قیامت کے دن اُسے سات زمینوں...

  • 12  اپریل ،  2024

حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ کا دن...

  • 11  اپریل ،  2024

حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:یہ بیچارے غلام اور ملازم...

  • 10  اپریل ،  2024

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے احسان کا شکریہ...

  • 10  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم.حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے۔ انہوں نے فرمایا :دعا آسمان اور زمین کے...

  • 09  اپریل ،  2024

حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب شب قدر آتی ہے تو جبرئیل علیہ...

  • 09  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلمحضرت ابو اُمامہ رضی اللہ عنہٗ کا بیان ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے...

  • 09  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلمحضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہٗ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ...

  • 08  اپریل ،  2024

مولانا سیّد سلیمان یوسف بنوریآپ کے مسائل اور اُن کا حلسوال: ہمارا گاڑیوں کی خریدوفروخت کا کاروبار ہے۔ ایک اور شخص ب نئی...

  • 08  اپریل ،  2024

ماہ شوال کے چھ روزے، جو شوال کی دُوسری تاریخ سے شروع ہوتے ہیں، مستحب ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:...

  • 08  اپریل ،  2024

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پوری...

  • 08  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلمجناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے، جو شخص عید کے دن تین سو مرتبہ سبحان...

  • 07  اپریل ،  2024

مفتی محمد مصطفیٰحضرت سہل بن سعدؓ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا :’’میری امت کے لوگ بھلائی پر رہیں گے، جب تک وہ روزہ...

  • 07  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلمحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو...

  • 07  اپریل ،  2024

ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلمحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:...

  • 07  اپریل ،  2024

مولانا نعمان نعیم’’زکوٰۃ‘‘ اسلام کےبنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ قرآن وسنت میں زکوٰۃ کی فرضیت اور فضیلت و...

  • 06  اپریل ،  2024

سید صفدر حسینامام موسیٰ کاظمؒ، حضرت امام جعفر صادقؒ کے صاحبزادے ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ حمیدہ بربریہ اندلسیہ تھیں۔ آپ...

  • 06  اپریل ،  2024

مولانا اطہرحسینیو ں تو اس کارخانۂ عالم کی سب ہی چیزیں قدرت کی کرشمہ سازیوں اور گلکاریوں کے ناطق مجسمے، اسرارورموز کے...

  • 06  اپریل ،  2024

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکیہ کا سہارا لگائے بیٹھے...