ماہِ رمضان کا آخری عشرہ: جہنم سے نجات کا پروانہ

رمضان المبارک کا دوسرا عشرہ بھی جدا ہوا چاہتا ہے۔ پہلے عشرے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحمتوں، برکتوں کا نزول فرمایا۔ دوسرے عشرے میں بخشش و مغفرت عنایت کی گئی اور اب تیسرے عشرے کے لیے جہنم سے نجات کا پروانہ اور جنّت کی بشارت موجودہے۔ کتنے خوش قسمت ہیں، اللہ کے وہ نیک بندے، جو اس عظیم انعام کے مستحق قرار پائے اور کتنے بدنصیب ہیں وہ، جن کی آنکھوں پر اب بھی غفلت کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ احادیث میں ماہِ مبارک کے آخری عشرے کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ امّ المومنین، حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں ’’جب رمضان کا آخری عشرہ آتا، تو رسول اللہؐ راتوں کو بے دار رہتے، اپنے گھر والوں کو بھی بے دار فرماتے اور اتنی محنت کرتے، جتنی کسی اور عشرے میں نہیں کرتے تھے۔‘‘ (صحیح بخاری و مسلم)۔ یہ عشرہ رحمت اور مغفرت کی انتہا ہے، یعنی اگر کوئی شخص اپنے گناہوں پر نادم ہو کر صدقِ دل سے توبہ کرلے اور معافی کا طلب گار ہو، تو رحمتِ خداوندی جوش میں آتی ہے اور اسے جہنّم سے نجات دے دی جاتی ہے۔ آخری عشرے کی فضیلت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اس عشرے میں اللہ کے عبادت گزار بندے اعتکاف بیٹھتے ہیں۔ اس آخری عشرے کی طاق راتوں میں شبِ قدر ہے، جس میں قرآن نازل ہوا۔ اللہ قرآن میں فرماتا ہے ’’ہم نے اس قرآن کو شبِ قدر میں نازل کیا اور تم کیا جانو کہ شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘ (سورۃ القدر)

طاق راتوں کی فضیلت: رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں یعنی اکیسویں، تیئسویں، پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں شب کی بڑی فضیلت ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں ’’رسول اللہؐ نے فرمایا۔ ’’لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری دس دنوں کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ (صحیح بخاری)۔ یہ طاق راتیں بندئہ مومن کے لیے اللہ کا بہت بڑا انعام ہیں، جو عبادات کو کندن کردیتی ہیں۔ پس، ان راتوں کو عبادتِ الٰہی اور ذکرِ الٰہی میں گزار کر اللہ کا قرب حاصل کریں۔ اللہ تبارک تعالیٰ نے شبِ برأت کو ظاہر فرمادیا کہ ہر سال ماہِ شعبان کی پندرہویں رات، شب برأت ہے، تاہم شب قدر کو مخفی رکھا۔ اللہ چاہتا ہے کہ اس کے بندے ان پانچ طاق راتوں میں اسے تلاش کرنے کے شوق میں زیادہ سے زیادہ عبادت و ریاضت، تسبیح و تہلیل، ذکر و اذکار کے ذریعے رب سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں۔ اس کی رحمتوں کی بارش سے سیراب ہوں اور فیوض و برکات کے انمول خزینوں کے حق دار بن جائیں۔

اعتکاف، ماہِ رمضان کے آخری عشرے کی اہم عبادت: امام الانبیاء، محسنِ انسانیت، رحمتہ للعالمین، رسالت مآب، حضور نبی کریمؐ نے فرمایا ’’جو شخص اللہ کی رضا اور خوش نودی کے لیے ایک دن کا بھی اعتکاف کرتا ہے، تو اللہ اس شخص کے اور دوزخ کے درمیان تین ایسی خندقوں کے برابر دیوار قائم کر دیتا ہے، جن خندقوں کا فاصلہ زمین و آسمان کے فاصلے سے بھی زیادہ ہے۔‘‘ روایت میں آتا ہے کہ حضور نبی کریمؐ نے فرمایا ’’جو شخص رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرے، تو اسے دو حج اور دو عمروں کے برابر ثواب ملے گا۔‘‘ (بیہقی)۔اعتکاف کے لغوی معنی ہیں ٹھہرنا اور رکنا۔ شریعت کی اصطلاح میں اعتکاف اس خاص عبادت کا نام ہے، جس میں کوئی شخص اللہ کا خصوصی قرب حاصل کرنے کی نیّت سے لوگوں سے الگ تھلگ مسجد میں ایک خاص مدّت کے لیے قیام کرتا ہے۔ اعتکاف کی تین قسمیں ہیں، ایک واجب، دوسری سنّتِ موکدہ کفایہ اور تیسری نفل۔

اعتکافِ واجب: یہ کسی منّت یا نذر کے لیے ہوتا ہے، جس میں کوئی شخص یہ کہے کہ میرا فلاں کام ہوگیا، تو میں اتنے دن کا اعتکاف کروں گا۔ اگر اس کا وہ کام ہوگیا، تو اس شخص پر واجب ہے کہ وہ اعتکاف کرے۔ اعتکافِ واجب کے لیے روزہ شرط ہے، بغیر روزے کے اعتکافِ واجب صحیح نہیں ہے۔ (درمختار)۔

اعتکافِ سنّت موکدہ: یہ رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں کیا جاتا ہے۔ یعنی بیسویں رمضان، سورج غروب ہونے سے پہلے اعتکاف کی نیّت سے مسجد میں داخل ہوجائے اور عید کا چاند ظاہر ہونے کے بعد مسجد سے باہر نکلے۔ اعتکاف کی اس قسم کو سنّتِ موکدہ کفایہ کہتے ہیں۔ یعنی اگر محلّے سے ایک آدمی بھی اعتکاف میں بیٹھ گیا، تو اہلِ محلّہ آخرت کے مواخذے سے بَری ہوجائیں گے۔ اور اگر خدانخواستہ محلّے سے کوئی بھی نہ بیٹھا، تو آخرت میں سب کا مواخذہ ہوگا۔

اعتکافِ نفل:امام محمدؒ کے نزدیک کم سے کم اعتکاف یہ ہے کہ جب کوئی شخص مسجد میں نماز کے لیے داخل ہو، تو اعتکاف کی نیّت کرلے، جتنی دیر مسجد میں رہے گا، اعتکاف کا ثواب پائے گا۔ نیّت کے لیے دل میں خیال کرلینا اور منہ سے صرف یہ کہنا کافی ہے کہ ’’میں نے اللہ کے لیے اعتکاف کی نیّت کی۔‘‘ مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسجد میں اعتکاف کرے اور خواتین اپنے گھر میں نماز پڑھنے والی جگہ پر اعتکاف کرلیں۔

معتکف کے لیے ضروری ہدایات

معتکف کے لیے ضروری ہے کہ اپنے دن اور رات کا زیادہ وقت عبادتِ الٰہی، یعنی نفلی نمازوں، تلاوتِ کلام پاک، ذکر و اذکار، تسبیحات و تہلیلات میں صَرف کرے۔ کثرت سے درود شریف کا وِرد کرے۔ بعض باتیں ہر حال میں حرام ہیں، جن سے حالتِ اعتکاف میں بھی بچنا بہت ضروری ہے، مثلاً غیبت، بہتان، جھوٹ، چغلی، عیب جوئی، جھوٹی قسمیں کھانا، بدنام کرنا، ریاکاری، غرور و تکبّر، کسی کو اذیت دینا، سگریٹ، سگار، بیڑی یا حقّہ پینا، پان یا گٹکا کھانا، آپس میں گپ شپ کرنا۔ معتکفین کے لیے لازم ہے کہ مسجد کے اندر صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھیں۔ خصوصی طور پر سحری اور افطار کے وقت اپنے ذاتی سامان مثلاً کپڑے، تولیے وغیرہ کو سمیٹ کر قرینے سے رکھیں، نماز کے اوقات کا خصوصی خیال رکھیں۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ نوجوان معتکف، فرض نمازوں کے بعد آپس میں گفتگو شروع کردیتے ہیں، جس سے دیگر نمازیوں کی عبادت میں خلل واقع ہوتا ہے۔ معتکف کو موبائل فون کے استعمال سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ مساجد میں اعتکاف سے پہلے معتکفین کی تربیت کا انتظام ضروری ہے، لہٰذا مساجد کی انتظامیہ اس امَرپر خصوصی توجّہ دے۔

فتحِ مکّہ

رمضان المبارک میں حق و باطل کے درمیان ہونے والا تاریخ ساز اور فیصلہ کن معرکہ

رمضان المبارک کی رحمتوں، انعامات اور فیوض و برکات کی ساعتوں میں اللہ نے مسلمانوں کو عظیم فتوحات سے نوازا۔ 17رمضان 2ہجری کو غزوئہ بدر کے محیّرالعقول معرکے میں تاریخ ساز کام یابی کے بعد اس بات کا امکان پیدا ہوچلا تھا کہ اللہ تعالیٰ بہت جلد مکّے کو بھی مسلمانوں کے زیرِنگیں کردے گا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ غزوئہ بدر کے صرف چھے برس بعد ہی سرکارِ دوعالم، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی رہنمائی و سربراہی میں مسلمانوں نے کرئہ ارض پر وہ عظیم الشان انقلاب برپا کردیا کہ جس کی نظیر تاریخِ انسانی میں نہیں ملتی۔ صلحِ حدیبیہ کی مسلسل عہد شکنی کے نتیجے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑے فیصلے کا اعلان کردیا اور 10رمضان المبارک 8ہجری کو آپؐ 10ہزار صحابہ کی عظیم الّشان فوج لے کر بہ نفسِ نفیس مکّے کی جانب روانہ ہوئے۔ 16رمضان المبارک کو آپؐ نے مکّے سے کچھ فاصلے پر وادئ ’’مرالظہران‘‘ پہنچ کر قیام فرمایا۔ جنگی حکمتِ عملی کے تحت آپؐ نے حکم دیا کہ سب الگ الگ آگ روشن کریں۔ اس عمل سے پورا صحرا روشن و منور ہوگیا۔ قریش کو جب مسلمانوں کی آمد کی اطلاع ملی، تو انہوں نے تحقیق کے لیے اپنے سردار، ابوسفیان کو روانہ کیا۔ جب ابوسفیان نے رات کی تاریکی میں مکّے کے دشت و جبل کو روشنی سے منور دیکھا، تو شدتِ حیرانی میں بے اختیار کہہ اٹھا۔’’خدا کی قسم! میں نے آج جیسی روشنی اور ایسا روشن لشکر کبھی نہ دیکھا۔‘‘

منگل17 رمضان کی صبح، رسول اللہؐ نے فوج کو کوچ کا حکم دیا اور آپؐ وادئ ’’زی طویٰ‘‘ پہنچے۔ یہاں آپؐ نے لشکر کی ترتیب و تقسیم فرمائی۔ ابو سفیان نے پہلے ہی اہل ِقریش کو مسلمانوں کی ایک عظیم فوج کی آمد کی اطلاع دے دی تھی۔ اس اطلاع سے کفّارِ قریش بدحواس ہو کر ڈر کے مارے اپنے گھروں میں قید ہوگئے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت اور حکم کے مطابق، مسلمان تین طرف سے مکّے میں داخل ہوئے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ، مکّے کے زیریں حصّے سے اندر داخل ہوئے اور قریش کے اوباش نوجوانوں سے نبرد آزما ہوتے اور مکّے کی گلی کوچوں کو روندتے ہوئے کوہِ صفا پہنچے۔ حضرت ابو عبیدہؓ پیادہ پر مقرر تھے، وہ وادئ بطن کے راستے مکّے میں داخل ہوئے۔ حضرت زبیرؓ، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علَم بردار تھے، انہوں نےرسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق، حجون میں مسجدِ فتح کے پاس علَم نصب کیا اور وہیں ٹھہرے رہے، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ کچھ توقف کے بعد آپؐ انصار و مہاجرین کے بہت بڑے جَلو کے درمیان مسجدِ حرام کی جانب بڑھے۔ اللہ کی شان نرالی ہے، جس مکّے سے8سال قبل آپؐ کو رات کی تاریکی میں ہجرت پر مجبور کردیا گیا تھا، آج اسی مکّے میں حکمراں کی حیثیت سے داخل ہو رہے ہیں۔ آپؐ نے آگے بڑھ کر حجرِ اسود کو بوسہ دیا۔ بیت اللہ کے گرد اور چھت پر360بت تھے، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کمان تھی، آپؐ اس کمان سے بتوں کو ٹھوکر مارتے جاتے اور کہتے جاتے تھے۔’’حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ باطل مٹنے ہی کی چیز ہے۔‘‘ آپؐ کی ٹھوکر سے تمام بت زمیں بوس ہوگئے۔ ان میں بت پرستوں کا مرکزی بت ’’ہبل‘‘ بھی تھا، جسے انسانی صورت میں یاقوتِ احمر سے بنایا گیا تھا۔ اس کام سے فارغ ہوکر آپؐ نے طوافِ کعبہ کیا، پھر کعبے کے کلید بردار، حضرت عثمان بن طلحہؓ سے چابی لے کر کعبہ شریف کا دروازہ کھولا، اندر دیواروں پر حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسماعیلؑ کی خود ساختہ تصاویر تھیں، آپؐ نے انہیں مٹانے کا حکم دیا۔ پھر آپؐ اندر تشریف لے گئے، نوافل ادا کیے اور دیر تک ذکر و اذکار کرتے رہے۔ جب باہر آئے، تو دیکھا کہ سامنے ہجومِ عام جمع ہے، جو شرمندہ چہروں کے ساتھ اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کے لیے بے تاب ہے۔ ان میں سردارِ مکّہ بھی ہیں، امراء و رئوسا بھی کہ جن کے ہاتھ معصوم مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، ان میں وہ بھی ہیں، جو حضورؐ کی راہ میں کانٹے بچھاتے، ایڑیوں کو پتھروں سے لہولہان کرتے، گلے میں رسّا ڈال کر کھینچتے، تپتی ریت میں مسلمانوں کو لٹا کر جسموں کو آگ میں دہکتی سلاخوں سے داغتے۔اس روزوہ سب حضورؐ کی نگاہوں کے سامنے تھے۔ ہر شخص اپنے بدحواس وجود کے ساتھ ایک سخت سزا کا منتظر تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب شروع کیا! ’’اے قریش کے لوگو! کیا تم جانتے ہو کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟‘‘ اگرچہ وہ ظالم اور بے رحم لوگ تھے، لیکن مزاجِ نبیؐ سے واقف تھے۔ پکار اٹھے کہ ’’آپ شریف بھائی اور شریف بھائی کے بیٹے ہیں۔‘‘ جواباً رحمتہ للعالمین کی آواز نے فضا میں پھول بکھیردیئے۔ ’’تم پر آج کچھ گرفت نہیں، جائو تم سب آزاد ہو۔‘‘ ہجرت کے وقت حضورؐ کے گھر کا محاصرہ کرنے والے چودہ سرداروں میں سے گیارہ غزوئہ بدر میں جہنّم رسید ہوچکے تھے، تین غیرحاضری کی وجہ سے زندہ بچ گئے تھے۔ آج وہ بھی اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کے لیے سر جھکائے ہمہ تن گوش تھے۔ اللہ کے رسولؐ نے جب ان تینوں یعنی ابوسفیان بن حرب، حکیم بن حزام اور جبیر ابن مطعم کا نام لیا، تو مجمعے کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ ہر شخص کو ان کے بھیانک انجام کا یقین تھا۔ پھر محسنِ انسانیتؐ کی آواز نے سکوت توڑا۔ ’’ان تینوں کو بھی امان دی جاتی ہے اور جو حرمِ کعبہ کی دیوار کے سائے میں بیٹھ جائے، اسے بھی امان ہے، جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوجائے، اسے بھی امان ہے، جو ہتھیار پھینک دے، اسے بھی امان ہے۔‘‘ قریش کے سب سرداروں نے ہتھیار ڈال دیئے تھے، لیکن ابوجہل کا بیٹا، عکرمہ فتحِ مکّہ کے وقت یمن فرار ہوگیا تھا۔ عکرمہ کی بیوی اپنے بچّوں کے ساتھ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس کے لیے امان طلب کی۔ آپؐ نے اسے بھی امان دے دی۔ پھر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کی کنجی حضرت عثمان بن طلحہؓ کے حوالے کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’یہ اب ہمیشہ تمہارے پاس ہی رہے گی۔ اللہ نے تم لوگوں کو اپنے گھر کا امین بنایا ہے۔‘‘ نماز کا وقت ہوچکا تھا۔ رسول اللہؐ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ کعبے کی چھت پر چڑھ کر اذان دو، اور پھر روحِ اذانِ بلالی سے مکّے کے پہاڑوں سمیت ساری فضا جھوم اٹھی۔ نماز سے فارغ ہوکر حضورؐ، امّ ہانیؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ وہاں آپؐ نے غسل فرمایا اور آٹھ رکعت نمازِ شکرانہ ادا فرمائی اور اس طرح رمضان المبارک میں فتحِ مکّہ کے اس تاریخ ساز اور عظیم معرکے نے جزیرئہ عرب سے بت پرستی کا مکمل خاتمہ کردیا۔

Share This:

اسلامی مضامین

  • 28  مارچ ،  2024

عمران احمد سلفیارشادِ باری تعالیٰ ہے : جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا...

  • 28  مارچ ،  2024

مولانا نعمان نعیمدنیا کے تمام ادیان و مذاہب میں دین اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ آخری الہامی مذہب ،دین فطرت اور دین...

  • 28  مارچ ،  2024

محمد عبدالمتعالی نعمانرمضان کریم کے بابرکت اور مقدس ایام کے اختتام پر آنے والی رات ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ یعنی شب...

  • 28  مارچ ،  2024

مولاناڈاکٹر سعیدا حمد صدیقی’’اعتکاف‘‘رمضان المبارک کی مسنون اور اہم عبادت ہے ،جسے فرض کفایہ کا درجہ حاصل ہے۔احادیثِ...

  • 27  مارچ ،  2024

پروفیسر خالد اقبال جیلانیاس سال کے رمضان المبارک کا آغاز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھیانک معاشی ماحول میں ہورہا ہے۔...

  • 27  مارچ ،  2024

ڈاکٹر آسی خرم جہا نگیری ’’نمازِ تراویح‘‘ نبی کریم ﷺ کی سنّت ہے اور احادیث مبارکہ میں اس کی فضیلت آئی ہے۔ حضرت ابو...

  • 27  مارچ ،  2024

حضرت سلامہ بن قیصر حضرمی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی...

  • 27  مارچ ،  2024

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’حجاج اور معتمرین اللہ کے...

  • 26  مارچ ،  2024

پروفیسر خالد اقبال جیلانیرمضان المبارک کا مہینہ اہلِ ایمان کے لئے سراپا رحمت ہے ، یہ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندوں کے...

  • 26  مارچ ،  2024

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ جب رمضان شریف آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ ...

  • 26  مارچ ،  2024

مفتی محمد راشد ڈسکویآج کل ہر طرف مہنگائی کے از حد بڑھ جانے کے سبب ہر بندہ ہی پریشان نظر آتا ہے، کسی بھی مجلس میں شرکت کی...

  • 26  مارچ ،  2024

اسلام دین رحمت،نظام فطرت اور مذہب انسانیت ہے،اس کی تعلیمات بنی نوع آدم کی فلاح اور نجات کی حقیقی ضامن ہیں۔ قرآن کریم...

  • 25  مارچ ،  2024

ڈاکٹر حافظ محمد ثانیاسلام دین رحمت،نظام فطرت اور مذہب انسانیت ہے،اس کی تعلیمات بنی نوع آدم کی فلاح اور نجات کی حقیقی...

  • 24  مارچ ،  2024

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ نے...

  • 24  مارچ ،  2024

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:روزہ آدھا صبر ہے۔ حضرت...

  • 24  مارچ ،  2024

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:’’جو شخص ایمان و...

  • 24  مارچ ،  2024

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے آخر میں ہمارے سامنے خطبہ دیتے...

  • 23  مارچ ،  2024

مفتی غلام مصطفیٰ رفیقماہِ رمضان ہزاروں رحمتوں اوربرکتوں کو اپنے دامن میں لئے ہم پرسایہ فگن ہونے والا ہے، یہ بابرکت...

  • 23  مارچ ،  2024

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ایک صاحب حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے،...

  • 23  مارچ ،  2024

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کا...